تحریک لبیک پاکستان اور ن لیگ

پاکستان مسلم لیگ نواز کے انتخابات دو ہزارہ اٹھارہ میں ہارنے یا ہروائے جانے کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں ایک بڑی وجہ تحریک لیبک پاکستان کا قیام ہے ۔آپ انتخابات دو ہزارہ اٹھارہ کے نتا ئج اٹھا کے دیکھ لیں آپ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ تحریک لبیک پاکستان کے قیام کا سب سے بڑا فائدہ واسظہ یا بالواسطہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوا جبکہ سب سے زیادہ نقصان نواز لیگ کو اٹھانا پڑا۔

تحریک لبیک نے قومی اسمبلی کی 175 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے جبکہ پنجاب اسمبلی کے امیدواروں کی تعداد264،سندھ میں 68،خیبر پختونخواہ میں 41 بلوچستان میں 10ہے۔ پارلیمنٹ سے ختم نبوت کے معاملے پر ہونے والی متنازعہ ترمیم کے بعد بننے والی اس جماعت کا جنم گو کہ پنجاب سے ہوا لیکن پنجاب میں مقبولیت کے باوجود اس نے دو نشستیں کراچی سے لی ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر اس کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے جن میں لیاری سے احمد بلال قادری نے 42345 ووٹ حاصل کیے ہیں، ان کے ووٹوں کی تعداد بلاول بھٹو سے زیادہ ہے۔ بلال قادری سنی تحریک کے بانی سلیم قادری کے بیٹے ہیں۔گو کہ تحریک لبیک قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہ کرسکی تاہم کراچی سے تحریک لبیک پاکستان نے دو صوبائی نشستوں پی ایس 107 لیاری اور پی ایس 115 بلدیہ پر کامیابی حاصل کی۔

الیکشن کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے کم سے کم اٹھارہ حلقے ایسے ہیں جن پر ہارنے والے امیدوار کے ووٹ مخالف امیدوار سے ایک ہزار سے بھی کم ہیں جبکہ کم سے کم دو درجن سے زائدحلقے ایسے ہیں جن پر تحریک لبیک کے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد اس مارجن سےکہیں زیادہ ہے جس پرن لیگ کے نمائندے کو پی ٹی آئی کے نمائندےسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔آپ لاہور کے حلقہ این اے ایک سو اکتیس کی مثال لے لیجیے جہاں عمران خان نے سعد رفیق کو صرف 680ووٹوں سے شکست دی جبکہ یہاں تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار سید مرتضی حسن 9780ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ یہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار 6746ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر ہر رہا۔

اسی طرح فیصل آباد کے حلقہ این اے 108 میں ن لیگ کے عابد شیر علی کو صرف 1211ووٹوں سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فرخ حبیب سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔یہاں بھی ٹی ایل پی کا میدوار شہباز علی گلزار تیسرے نمبر پر رہا اور ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی
تعداد 8075ہے۔

میرا ذاتی خیا ل ہے کہ تحریک لبیک کو بنانے کا جو مقصد تھا بہر حال اس میں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔انتخابات سے قبل ہی میں نے یہ بات بڑی واضح طور پر کہی تھی کہ ٹی ایل پی قومی اسمبلی میں کوئی بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ مقصد اسے پارلیمنٹ میں لانا نہیں بلکہ کسی وفاق میں حکومت سازی سے روکنا ہے۔تحریک لبیک پاکستان نےنہ صرف ن لیگ بلکہ اس جماعت کے ووٹ بینک نے دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی جزوی نقصان پہنچایا۔

گوکہ ٹی لی پی کی جانب سے باقی جماعتوں کی طرح نتائج کو مسترد کیا گیا ہے اور ایک بار پھر احتجاج اور پارلیمنٹ کے گھیراو کی دحمکی دی گئی ہے لیکن اب یہ بیل منڈھیر چڑھتی نظر نہیں آرہی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقیت ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کو اپنے مقا صد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور تا حال کیا جارہا ہے اور ہماری عوام ہمیشہ سے اس کا آلہ کار بنتی رہی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب یہ کھیل ختم ہونا چاہیے مذہبی جماعتوں کے سربراہان کو مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ انہیں اب سیاست میں آنا ہے یا کہ دین کی ترویج کے لیے کام کرنا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے