نیپال ۔۔۔کچھ مشاہدات اور تاثرات

نیپال میں دوسری مرتبہ تعلیمی سفر کا موقع ملا ۔ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے پروفیسر اور ندوۃ العلماء کے فاضل ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کے ڈیزائن کردہ "مدرسہ ڈسکورسز ” میں پاکستان اور انڈیا سے پچاس کے قریب لوگ شریک ہیں ۔ ان دونوں گروپوں کو سمر اور ونٹر انٹینسو میں تعلیمی ورکشاپ کے لیے اکٹھا کیا جاتاہے ۔ پچھلے سال سمر انٹینسونیپا ل کے دار الحکومت کھٹمنڈو میں تھا، ونٹر انٹینسو قطر میں تھا اور اس سال سمر انٹینسو نیپال کے پہاڑی علاقے میں ایک پرفضا ء مقام پر ہے یہ علاقہ دھلی خیل ہے جو کہ کھٹمنڈو سے تقریبا تیس کلو میٹر دور پہاڑی مقام ہے ۔

ان ورکشاپس میں مختلف ممالک سے ارباب عقل و دانش آتے ہیں اور شریک لوگوں سے اپنے متعلقہ موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں ، گفتگو میں سوال و جواب اور افہام و تفہیم پر خاص زور دیاجاتاہے ۔ ان دوگروپوں کے ساتھ کچھ طلباء نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے بھی ہوتے ہیں اور اس سال کچھ طلباء افریقہ سے بھی ہیں جن میں بعض مدرسہ گریجوٹس ہیں اور بعض اسلامک اسٹڈی یا سوشل سائنسز کے شعبہ سے متعلق ہیں ۔ یہ مختلف جگہوں اور بیک گراؤنڈ سے آئے ہوئے لوگ مختلف سنجیدہ ایشوز پر آپس میں ڈسکشن بھی کرتے ہیں جس کے لیے کچھ ٹائم تو باقاعدہ مختص کیا جاتا ہے جس میں کسی خاص موضوع پر گفتگو کی جاتی ہے اور نتائج فکر دیگر ساتھیوں سے شیئر کیے جاتے ہیں ۔

ان موضوعات میں اکثر موجودہ ہونے والی اہم تبدیلیاں ، ان کے اثرات اور ان سے جنم لینے والے سوال ہوتے ہوتے ہیں ، جن پر مختلف مذاہب ، ذہنوں ، علاقوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جب گفتگو کرتے ہیں تو ایک ہی بات کے بہت سے پہلو سامنے آجاتے ہیں ۔ گروپوں میں بیٹھنے یا کمروں میں رہائش کے دوران اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ایک ہی علاقے اور پس منظر کے لوگ اکھٹے نہ ہوجائیں جس سے بجا طور پر دوسروں کو قریب سے ان کی زبانی سمجھنے کا موقع ملتاہے ۔ ایک ہفتہ یا دوہفتے اکٹھا رہنے سے نئے تعلقات اور دوست بنتے ہیں اور دومختلف پس منظر رکھنے والوں کو باہم آشنائی ہوتی ہے اور ثقافتی ، تہذیبی ،مذہبی افکار کا تبادلہ ہوتاہے ۔

نیپال جنوبی ایشیا میں پہاڑی ملک ہے جس کی شمالی سرحد پر چین اور باقی اطراف پر بھارت واقع ہے جبکہ اس کا کچھ حصہ جو کہ ستائیس کلو میٹر ہے بنگلہ دیش سے ملتاہے اوربھوٹان کو انڈیا کا کچھ حصہ اس سے جدا کر دیتاہے ۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ اس کے شمالی اور مغربی حصہ میں سے گزرتا ہے اور دنیا کا عظیم ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ اس کی سرحدوں میں پایا جاتا ہے ، جبکہ دنیا کی دیگر دس بڑی پہاڑی چوٹیاں بھی یہاں ہیں ، اس کے علاوہ پہاڑوں ، وادیوں ، جھیلوں اور قدرتی خوبصورت مناظرکے بہت سے مقامات نیپال میں ہیں لیکن اس کے ساتھ سمندر نہیں لگتا ہے جس کے لیے اس کو انڈیا کی ضرورت پڑتی ہے ۔ قدرتی حسین مناظر کے علاوہ نیپال میں بہت سے تاریخی مقامات ہیں ۔

2015 ء میں آنے والے سخت زلزلے نے نیپال کو کئی طرح سے متاثر کیا ، اس زلزلے کی تباہی میں بہت سی تاریخی عمارتیں بھی آئیں تاہم اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور دنیا کی دیگر تنظیموں اور حکومتی کوششوں سے ان کو بحال کرنے کا کام بہت تیز ی سے جاری ہے ۔ ان تاریخی عمارتوں میں زیادہ شہرت کا باعث بدھوں کی محبت کے مراکز ہیں ، گو یہاں کا اکثریتی مذہب ہندومت ہے تاہم بانی بدھ مت گوتم بدھ کی جائے پیدائش کی وجہ سے بدھوں کے ہاں اس ملک کو خاص اہمیت حاصل ہے ، اس ملک میں ان کے اسٹوپا اور دیگرتاریخی چیزیں ہیں ، بدھ مت کے بڑے ترین اسٹوپوں میں سے ایک بودھا ناتھ یہاں واقع ہے ۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے سٹوپا میں شمار ہوتا ہے جہاں روزانہ ہزاروں اور سالانہ لاکھوں بدھسٹ اس کی زیارت اور طواف کے لیے آتے ہیں، لوگ ہاتھوں میں تسبیح لیے منتر پڑھتے ہوئے حسب توفیق (طاق عدد یعنی تین ، پانچ، سات، نو وغیرہ)طواف کرتے ہیں۔ تسبیح اور طواف کا تصور ہمارے ہاں بھی پایاجاتاہے ۔ اس اسٹوپا میں بہت سے بیرل ہیں جن کو گھمانے سے خیر و برکت حاصل ہوتی ہےاورمنتروں کا ورد ہوتارہتاہے ۔ اس اسٹوپا کے اوپر دو آنکھیں بنی ہیں جن کے بارے میں بدھوں کا خیال ہے کہ یہ رحمت اور حکمت کی آنکھیں ہیں ۔ اس کے اردگر د لوگوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا جو کھڑے ہوتے ہیں اور سیدھا لیٹ جاتے ہیں اور پھر فورا کھڑے ہوجاتے ہیں ، یہاں بہت سے لوگ مستقلا مقیم ہوتے ہیں اور گیان دھیان میں مصروف رہتے ہیں ، گیان دھیان کے تصورات اور ہمارے صوفیاء کے مراقبوں اور چلوں میں فرق کرنا بہت مشکل ہے ۔

یہاں چاروں طرف پانچ رنگوں پر مبنی دعائیے جھنڈے خیر و برکت کے لیے لگے ہوئے ہیں جس طرح کے ہمارے درباروں پر مختلف رنگوں کے جھنڈے لگے ہوتے ہیں ۔ان جھنڈوں پر سنسکرت ، تبت اور دیگر زبانوں میں بدھ مذہب کے دعائیہ کلمات لکھے گئے ہیں۔ اس کے آس پاس میں بہت سے بدھسٹ موناسٹریز یعنی بدھست دینی مدارس قائم ہیں جہاں ایک دو میں خود جا کر ان کا طریقہ تعلیم اور رہائشی لوگوں کو دیکھا، ان رہائشی لوگوں میں جو کہ رہبانیت اختیارکیے ہوتے ہیں بہت سی زمانی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ، ایک دور تھا جب یہ پڑھتے نہیں تھے لیکن اب یہ ان جگہوں پر رہتے ہوئے عصرتی تعلیم حاصل کرتے ہیں ، ان کے پاس موبائل اور رابطہ دنیا کی دیگر تمام سہولیات پائی جاتی ہیں ۔

اس کے علاوہ نیپال میں بے شمار مندر اور ہندو مت کی تاریخی عمارتیں بھی ہیں ، ایک اہم ہندو مندر پشو پتی ناتھ میں ہمیں جانے کا اتفاق ہوا وہاں دیگر رسومات کے ساتھ چتا ” میت ” کو جلتے ہوئے دیکھا ۔ میت کو جلتے ہوئے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس میں نہ صرف میت کی توہین ہے بلکہ تعفن اور بدبو سے زندہ لوگوں کو بھی کافی پریشانی جھیلنی پڑتی ہے مزید برآں یہ بیماریوں کا بھی باعث ہے ۔

اس مندر کے ساتھ ہی دریائے بھاگ متی بہتاہے جس میں چتا کی راکھ کو پھینک دیا جاتاہے ۔ پشو پتی ناتھ مندر کے علاوہ ہمیں کالی جی کے مندر میں جانے کا اتفاق ہوا کالی جی کا تعلق ہندوؤں کے تباہی کے دیوتا شیوجی کے ساتھ ہے اس لیے کالی جی کو بھی تباہی کی دیوتا سمجھا جاتاہے ۔ ان کا مندر تقریبا ہزار سیڑھیاں چڑھنے کے بعد کافی بلندی پر واقع ہے اس بلندی سے دھلی خیل اور گردو نواح کے علاقوں کا نظارہ بہت خوبصورت نظر آتا ہے ۔ اس دربارمیں کالی جی کا مجسمہ نصب ہے ۔

اس دربار میں ایک سادھو سے ہماری ملاقات ہوئی جو کہ نارنجی کپڑے اوڑھے ہوئے تھا اس کے مخصوص اسٹائل کے ساتھ ہم نے اس کے ساتھ فوٹمیں بنوائیں ۔ سادھو جی دوسرے ممالک کی کرنسی جمع کرنے کے کافی شوقین تھے سو ہم نے بھی اپنے ملک کی کرنسی بطور یاد ان کو تھمادی ۔

کالی جی کے مندرکے راستے میں بدھا کا ایک بہت بڑا مجسمہ نصب تھا جس میں ان کو گیان دھیان کے مخصوص انداز میں دکھا یا گیا تھا ہم نے بھی اس مخصوص انداز کو کاپی کرنے کی کوشش کی تاکہ کچھ گیان دھیان ہمیں بھی نصیب ہو سکے ۔

اس سفرمیں اہم کام یہ ہو ا کہ ہم نے جنگل کا راستہ اختیار کیا اور ساتھ میں جنگل کی سیر کرتے ہوئے اوپر جانے لگے لیکن اچانک بارش شروع ہوگئی، نیپال میں بارشیں ویسے ہی زیادہ ہوتی ہیں اور پھر یہ خالص پہاڑی علاقہ تھا جہاں کسی بھی وقت بارش شروع ہوجاتی ہے اس لیے چھتری ساتھ رکھنا ضروری ہوتاہے ، چھتری ساتھ نہ رکھنے کی وجہ سے ہم نے ٹھنڈے موسم ، تیز بارش اور جنگل میں ہو کے عالم کو خوب انجوائے کیا۔

اس کے علاوہ ہم شیو جی کے مندر میں گئے جو کہ ہندؤوں کا تباہی کا دیوتا اور تین بڑے خداؤں براہمہ ، وشنو اور شیوا میں سے ہے ۔ یہاں شیوجی کا دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ نصب ہے جس کی بلندی 143 فٹ ہے ہم نے اس مجسمہ کے سایہ میں اور دیگر اکابرین ہند کےساتھ فوٹمیں لیں ۔

اس کے علاوہ بھی کئی مندروں پر گئے ، مندروں اور درباروں کی دنیا میں کوئی خاص فرق نظر نہ آیا ۔ جس طرح درباروں میں کچھ دن مخصوص ہوتے ہیں ، کچھ اوقات مخصوص ہوتے ہیں لوگ وہاں روحانیت کی تسکین کے لیے جاتے ہیں ، کوئی دربار میں پیسے ڈال دیتا ہے اور کوئی لنگر تقسیم کر دیتاہے ۔ آنے والے کوکوئی نہیں روکتا باباجی سب کے مشترکہ ہوتے ہیں کوئی بھی وہاں رہے ، کھائے پیے ، لنگر، نیاز اور نذرانہ سبھی کا ہوتاہے ، کچھ یہی صورتحال یہاں مندروں میں تھی ۔ تیل کے دیے ، اگر بتیاں جلانے والے ، ان مندروں کے لیے جانور قربان کرنے والے اور لنگر ، نیاز تقسیم کرنے والے بے شمار تھے ۔ ماتھا ٹیکنا ، چومنا اور جھکنا یہ بھی مشترک سی چیز تھی ۔

ایک اور چیز جو مجھے درباروں اور مندروں میں مشترک نظرآئی ، ایک دربار میں ہم گئے تو وہاں بہت سے لوگوں نے اپنی ضروریات اور حاجتوں کو پورا کرنے کے لیے تالے لگائے ہوئے تھے ، طریقہ یہ ہے لوگ کوئی منت مانگ کر تالا باند ھ دیتے ہیں اور پوراہونے پر کھول دیتے ہیں ، یہی چیز ہمیں کالی جی اور دیگر بزرگوں کے مندروں میں بھی نظر آئی ۔ البتہ یہاں تالوں کے ساتھ گھنٹیاں باندھنے کا چلن بھی ہے ۔

ایک ہندو سے بات چیت پر معلوم ہوا کہ ہندو مت زیادہ خالص شکل میں نیپال میں پائی جاتی ہے ، ہندو مت کی زبان سنسکرت ، رسم الخط اور دیگر رسوم انڈیا سے زیادہ مضبوطی سے یہاں رائج ہیں کیونکہ یہ ایسا اکثریتی ہندو ملک ہے کہ اس کی ستر سے اسی فیصد تک کی آبادی ہندو ہے اور یہاں مزاحم کوئی نہیں ہے جبکہ انڈیا میں دیگر مزاحم قوتوں کی وجہ سے سیکولرازم ہندومت پر غلبہ پاچکی ہے ۔

یہاں بھی سیاسی طور پر ہندو مت کی بجائے اب سیکولرازم نافذ ہوچکی ہے ، 2008 وہ سال تھا جب سیکولر ازم کو نافذ کیا گیا ، اس کے علاوہ ان کی سیاست میں چینی رہنما ماؤزے تنگ کے سوشلسٹ حامیوں نے ایک لمبہ عرصہ تک گوریلاجنگ کے بعد اب نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے ۔ سیکولرازم کے اثرات کافی گہرے ہیں یہاں کے لوگوں کے طور طریقوں میں بھی کافی آزادی نظر آتی ہے ،خاص کر عورتیں بہت آزاد اور فعال نظرآتی ہیں لیکن اس کے باوجود اکثریتی آبادی کے ہندو ہونے کی وجہ سے ہندو رسومات ابھی تک معاشرے میں بہت پختہ ہیں ۔

نیپال میں تقریبا 5فیصد مسلم بھی ہیں ، یہاں تقریباً 600 سال پہلے اسلام داخل ہو چکا تھا ، اسلام کی آمد ہندوستان ، کشمیر اور تبت تین راستوں سے ہوئی ۔ شاید اسی وجہ سے اس ملک میں تین مختلف ثقافث کے مسلمان ملتے ہیں سب نیپالی مسلمان ہوکر بھی الگ الگ زبان ، کھانے پہننے کا طریقہ سب الگ ہے ، سب کا مشغلہ الگ پایا جاتا ہے بسا اوقات یہ فرق تلخی کا سبب بنتا ہے۔

اس میں بھی شک نہیں کہ صوفیاء کرام کے ہاتھوں یہاں اسلام پہنچا یہاں اسلام کی کوششیں کرنے والے ایک بزرگ شاہ غیاث الدین کا مزار شاہی محل کے بالکل سامنے کچھ 100میٹر کے فاصلے پر پایا جانا ہے اور وہیں انہیں کی تاسیس کردہ کشمیری مسجد بھی ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی نیپالی جامع مسجد بھی ہے ، برصغیر میں موجودہ مسلم مسالک کے تناظر میں کشمیر ی مسجد بریلوی مسلک جبکہ نیپالی مسجد دیوبندکے پاس ہے ۔ یہ دو مسجدیں اور مسالک جہاں اسلام کے تنوع کی تصویر ہیں وہاں ان کے آپسی اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود بٹے ہوئے ہیں ۔ ان دو نوں مسجدوں کے اختلافات وقتا فوقتا ظاہر ہوتے رہتے ہیں ، عید کے چاند اور دیگر چیزوں پر ان دونوں مسجدوں کا کئی مرتبہ اختلاف ہو چکاہے ۔

یہاں دلچسپ چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ کشمیر ی مسجد میں جو بزرگوں کے دربار ہیں ان کو خوب اہتمام سے آراستہ کیا گیا ہے جیسا کہ بریلوی مسلک کا ذوق ہے جبکہ نیپالی جامع مسجد کے ساتھ بیگم بھوپال (یہ وہی بیگم ہیں جن کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے عورت کی حکمرانی جائز قرارد ی تھی کیونکہ خاندان کا کوئی مرد نہیں تھا ، مسلمانوں کی حکمرانی کے لیے ضروری تھا کہ ان کو حکمران بنایاجائے ، ان کی شادی بعد ازاں نواب صدیق حسن خان سے ہوئی تھی اور یہ نیپال میں مدفون ہیں ) کا مقبرہ ہے جس میں کوئی آراستگی اور اہتمام نظر نہیں آتاہے ۔ اس لیے میرے خیال میں مقبرے بریلوی مسلک کے پاس ہی ہونےچاہیے ۔نیپال میں مسلمان زراعت یا چھوٹی چھوٹی دکانوں سے اپنی روزی روٹی حاصل کرتے ہیں ان کے اقتصادی حالات کمزور ہیں ۔

نیپال کی دفتری زبان نیپالی ہے مگر یہاں 26 زبانیں بولی جاتی ہیں اور تمام زبانیں قومی زبانیں سمجھی جاتی ہیں ۔ نیپالی کے علاوہ یہاں کی اکثر آبادی ہندی زبان کو بآسانی سمجھتی ہے اس کی ایک وجہ تو نیپال اور انڈیا کے ہندؤوں کے باہم گہرے سماجی اور تجارتی تعلقات ہیں اور دوسری حیران کن وجہ یہ سامنے آئی کہ انڈین فلموں اور گانوں کی وجہ سے یہاں کے لوگ ان کی زبان کو بآسانی سمجھتے ہیں ۔

فلم ، ڈرامہ اور گانے اپنے کلچر کی اشاعت کا کس قدر بڑا ذریعہ ہو سکتے ہیں اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ ہندی اور اردو چونکہ بولنے میں ایک جیسی ہیں اس وجہ سے نیپال کے لوگوں سے گفت و شنید بآسانی ہو جاتی ہے ۔زبان کے حوالے سے ایک اور حیران کن چیز یہ سامنے آئی کہ لوگوں کے غریب اور علاقے کے پسماندہ ہونے کے باوجود ان کی تعلیم اچھی انگریزی میں ہوتی ہے اور ان کی انگریزی لینگویج ہم سے بدرجہا بہتر ہے عام لوگ بھی ہلکی پھلکی انگریزی بول لیتے ہیں ۔

نیپال کا شمار غریب ملکوں میں ہوتاہے ، اس کو بھارت کی کالونی کہاجائے تو بے جانہ ہوگا تاہم انڈیا کے ان کے پانی پر ڈیم بنانے اور ان کو سیلاب میں مبتلا کرنے کی وجہ سے تعلقات کچھ کشیدہ ہیں ، اس کشیدگی میں سوشلسٹ پارٹی اور چائنہ سے تعلقات کا بھی کردار ہے ۔ تاہم ابھی تک دونوں ملکوں کے بہت سے لوگ روزانہ کی بنیاد پر آتے جاتے ہیں ، ویزہ اور پاسپورٹ کی کوئی پابندی نہیں ہے ، تجارتی روابط بھی بہت مضبوط ہیں ، بہت سی جگہوں پر فوج مشترکہ ہے ۔

نیپال کے لوگوں کی کچھ خوبیاں جو ذاتی مشاہدے سے سامنے آئیں وہ انتہائی اہم اور قابل تقلید ہیں ۔ نیپال کے لوگ اعلیٰ اخلاقیات کے حامل ہیں ۔ ان کی گفتگو کا انداز انتہائی دھیما ، شائستہ اور محبت سے بھرپورہے ۔ ہم نیپال کے دار الحکومت میں بھی رہے اور دور دراز گاؤں دھلی خیل بھی رہے کہیں بھی لوگ باہم لڑتے ، گالم گلوچ کرتے یہاں تک کہ باہم اونچی یا غیر مہذب طریقے سے گفتگو کرتے بھی نہیں دیکھے ۔

ان لوگوں سے کوئی بھی بات پوچھیں اس کا نہایت اچھی طرح جواب دیں گے ، راستہ درست اور فکر مندی سے بتائیں گے ، کسی چیز کے خرید نے میں آپ کی درست رہنمائی کریں گے ۔ کوئی بات پوچھیں اس کا درست اور مکمل جواب دیتے ہیں ۔ غرض ان میں خوش خلقی کے ساتھ دیانتداری کا عنصر نمایاں دکھائی دیا ۔ ان کی ایک اور اہم خوبی جس کا ہم اپنے معاشرے میں بہت زیادہ فقدان پاتے ہیں ، یہ لوگ اضافی اور فالتوچیزیں جو کوڑا کرکٹ کے ضمن میں آتی ہیں ان کو سڑکوں ، روڈوں یا گلیوں میں نہیں پھینکتے ہیں ان چیزوں کے حوالے سے ان کا نظم خاصہ اچھا نظر آیا ، ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے اس کی سڑکیں اور گلیاں اچھی طرح تعمیر شدہ نہیں ہیں ، بلکہ بعض کی حالت توا نتہائی خستہ ہے لیکن اس کے باوجود سڑکوں پر اضافی پھینکی ہوئی چیزیں نظر نہیں آتی ہیں ، پان کی تھوکیں ، بچی ہوئی سگریٹ اور اس قسم کی چیزیں سڑکوں پر بالکل نظر نہیں آتی ہیں ۔ ایسی چیزوں کے استعمال کے لیے بھی بار بنے ہونے ہوئے ہیں ، لوگ ان کو وہیں استعمال کرتے ہیں ، ان کا استعمال عام نہیں ہے ۔

ا ن لوگوں میں محنت کاجذبہ بہت زیادہ ہے ، یہ لوگ عام طور پر خوش نظر آتے ہیں ، محنت و مشقت سے کام کرنے کے باوجود ان کے ہاں اطمینان کی کیفیت ہے۔ محنت کے عمومی چلن کے باوجود ملک کا غریب ہونا سمجھ میں نہیں آتا شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ دنیا میں آج ترقی صنعت ، مشینری اور ٹیکنالوجی سے ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے ممالک جتنے بھی دیکھ لیں وہ ان میں سے کسی ایک چیز میں امتیازی خصوصیت کے حامل ہوں گے ۔ ان کے مردوں کے ساتھ ان کی عورتیں بھی کاروبار زندگی میں پور ی طرح شریک ہیں بلکہ یوں محسوس ہوتاہے کہ کاروبار حیات میں مرد کم اور عورتیں زیادہ ہیں کیونکہ دکانوں اور مارکیٹ میں جس قدر بھی ہمیں جانے کااتفاق ہوا ہمیں ہر جگہ عورتوں کی کثرت نظر آئی ۔لیکن ان کے مرد و عورت میں کشمکش نہیں ہے جس طرح کے ہمارے معاشرے میں یا دیگر روایت پسند معاشروں میں ہے ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کے حوالے سے ہم بہت سی چیزوں میں کمپرومائز کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ جدید دنیا کے دل لبھانے والے نعروں نے عورت کو بہت سی سطحوں پر متاثر کیا ہے اس لیے ہمارے معاشرے میں کچھ عورتیں جدید اقدار کو اپنانے کی کوشش میں ہیں جبکہ باقی اکثریت بھی کچھ عملی مسائل میں جو کہ عورتوں کے لیے مشکل کے باعث ہیں ان عورتوں کی ہمنوا نظر آتی ہیں ۔

ہمارا مذہبی روایتی طبقہ تو ان کے بالکل برعکس جانب کھڑا ہے جبکہ اکثریت عملی مسائل کے حل کی چاہت رکھنے کے باوجود مغربی معاشرتی اقدار کے بالکل بھی حامی نہیں ہیں ۔ اس لیے ایک تناؤ کی کیفیت ہے جبکہ ان معاشروں نے یورپ کے نظام اور طرز فکر کو مکمل طور پر اپنالیا ہے اور تمام لوگ ایک جہت میں سوچتے ہیں اس لیے ان کے ہاں تناؤ کی کیفیت ختم ہوچکی ہے ۔ ان لوگوں کا فیملی اسٹرکچر بھی مضوط ہے اور ہماری طرح ہی یہ لوگ فیملی میں ہی رہتے ہیں تاہم عورت آزادی اور خود مختار ی میں مرد کی طرح ہے ۔ ایسے معاشروں کے عملی مسائل شایدمختلف ہوں لیکن عورتوں کی ہراسمنٹ کے کیسزکم ہیں ، عورتوں کو دیکھتے رہنا اور گھر پہنچا کر آنا یہ خرابیاں ان کے ہاں کم ہیں ۔ یہاں مرد و عورت اچھے اور خوشگوار تعلقات میں تعاون باہمی کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ۔

نیپال میں امن اور شانتی وہ انتہائی اہم چیز ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں نیپال کے خوبصورت پہاڑی علاقوں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح یہاں نظر آتے ہیں ۔ امن و آشتی کایہ عالم ہے کہ اسکو ل و کالج اور کسی بھی سرکاری عمارت پر کوئی گارڈ نہیں ہے ۔ آپ جہاں چاہیں آئیں جائیں کوئی بھی آپ سے کچھ نہیں پوچھے گا ۔

دہشتگردی سے ہٹ کر علاقائی طور پر بھی امن و آمان ہے ، لڑائی جھگڑے وغیرہ نہیں دکھائی دیتے ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہمیں دوسروں کی خوبیوں سے سیکھنا چاہیے ، ملک کے غریب اور سہولیات کے فقدان کے باوجود ان لوگوں کی خوبیاں قابل تقلید ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے