شاخوں پہ انگلیوں کے نشاں

یہ فتح مبین کی گھڑی ہے۔ اگرچہ تاریخ کا تفصیلی فیصلہ آنے میں ابھی وقت لگے گا کہ اصل میں جیت کس کی ہوئی ہے اور کس کی ہار۔ جشن کے نقارے پر دن رات کے آٹھوں پہر چوٹ لگ رہی ہے. مہتابیاں پھوٹ رہی ہیں، خانہ زادوں اور نمک پروروں کا جو طائفہ تاریخ میں چوک پہ مٹھائی بانٹتا رہا ہے، آج کل ٹی وی کیمرہ دیکھتے ہی وفور مسرت سے رقص کناں ہو جاتا ہے۔

یہ حیرت اپنی جگہ ہے کہ لاہور میں ناچنے والوں کے قدم خٹک ڈانس پہ اٹھ رہے ہیں۔ قدموں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ کھلتا کسی پہ کیوں کر مری ذات کا حوالہ۔

واللہ جلوس شاہی کے دن نہیں رہے ورنہ یہ موقع تو بڑے سموں والے سفید گھوڑے پہ سوار ہو کے حریف کے مورچوں کا فاتحانہ چکر لگانے کا تھا، جاتی امرا سے 70کلفٹن تک، قلعہ عبداللہ سے ولی باغ چارسدہ تک، نائن زیرو عزیز آباد سے پنیالہ ڈیرہ اسمٰعیل خان تک، جہاں تک نظر جاتی ہے، حریف کے مفتوح مورچے میدان پانی پت کی طرح پامال نظر آتے ہیں۔ راہوار ابھی تازہ دم ہیں، سرکشیدہ پیادے میخ کی طرح ایستادہ ہیں، رسالے کے جوان پرواز کے لیے پر تولتے ہیں مگر کندھے اچکا کر رہ جاتے ہیں۔ غنیم کے لشکر میں کوئی صاحب توقیر نہیں جس کی پیشانی خاک آلود نہ ہو۔ وتعز من تشاء وتذل من تشاء۔

محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کی تاریخ پرانی ہو چکی۔ بہادر قبیلوں کی ہر نسل میں تلوار کی نوک سے تاریخ میں اپنے نام لکھتی ہے۔ 1978کو صرف چالیس برس گزرے ہیں۔ چھبیس برس کا ایک خوبرو شہزادہ سترہ برس بعد بھارت کے خلاف کھیلی جانے والی کرکٹ سیریز کھیلنے میدان میں اترا تھا۔

اس نوجوان نے چھ برس میں کل پندرہ ٹیسٹ میچ کھیل کے 32.95 کی اوسط سے کل باسٹھ وکٹیں لے رکھی تھیں۔ لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن جنرل ضیا کے عہد بدعہدی میں اطلاعات و نشریات کے مدار المہام تھے۔ نفسیاتی جنگ کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ جنرل مجیب الرحمٰن کی عقابی آنکھ نے ایچی سن کے تعلیم یافتہ اور یونانی خدوخال والے جوان رعنا کو سیاسی سرمایہ کاری کے لئے چن لیا۔

رہن سہن مغربی، رعونت کو چھوتی ہوئی بے گانگی، یورپ کی شبینہ ثقافت کا شناور، افسوس کہ نومبر 2009ء میں لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن دنیا سے پردہ فرما گئے۔ زندگی نے مہلت دی ہوتی تو آج بھوانہ بازار (فیصل آباد) میں اسٹیشنری کی چھوٹی سی دکان جہانگیر بک ڈپو مرجع خلائق قرار پاتی جہاں سے لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی اسکول کالج کی کاپیوں پر عمران خان کی گیند پھینکنے سے قبل آخری جست کی تصویر نے بچے بچے کی آنکھ میں کرکٹ کے خواب بھر دئیے تھے۔

پورے ملک پر زہد و تقوی کا کمبل ڈال دیا گیا تھا لیکن اس البیلے جوان کی نسبت سے اخبارات و جرائد کے صفحات پر نورس کلیوں کے چٹکنے کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ مجید امجد انتقال کر چکے تھے ورنہ انہوں نے ’آٹو گراف‘ جیسی ایک اور نظم لکھ دی ہوتی۔ ’’وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا‘‘۔ بھارت، انگلستان، آسٹریلیا سے امریکہ تک ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے ڈھیر پہ کھڑے ہو کے مارچ 1992 میں فتح کا وہ بلوریں کپ لہرایا گیا تھا جس کے حصول کی خاطر اسلامیان ہند نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں یہ قطعہ ارضی حاصل کیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمٰن ریٹائر ہو گئے لیکن آمر کج کلاہ اب خود اس نہال کی آبیاری کر رہا تھا۔ کرکٹ ڈپلومیسی صرف جے پور کے میدان تک محدود نہیں تھی۔ اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں تھیں۔ جلال آباد کے فاتح حمید گل نے کرکٹ کو جہادی عزائم کی وسعت بخش دی تھی۔

مغرب کی اشرافیہ کا تارہ اب جہادی لباس اور پاکول ٹوپی پہن کر طورخم پاراچنار کے دورے کرتا تھا۔ فسطائیت، ادارہ جاتی بندوبست کو مسترد کرتے ہوئے شخصی کرشمہ اور انفرادی رفاہ کے ذریعے سیاست کا کھیت سینچتی ہے۔

ایک اسپتال اس روایت میں تعمیر ہوا۔ 1995ء میں حمید گل مرحوم و مغفور، پروفیسر رفیق اختر حفظہ اللہ اور صحافت کے گنجفہ کبیر کی اتالیقی میں شروع ہونیوالا براؤن صاحب کا سفر اکتوبر 99تک آیا۔ 12اکتوبر 99سے ٹھیک چھ روز پہلے جی ڈی اے کے احتجاجی جلوس میں طاہر القادری اور عمران خان کے چہرے نمایاں تھے۔

یہ دونوں رجل رشید 2002 کے ریفرنڈم میں بھی شانہ بشانہ تھے۔ 2014کے ڈی چوک دھرنے میں بھی یکجان و دو قالب تھے۔ ستمبر 2017میں لاہور کے اس جلسے میں بھی رونق افروز تھے جس کی کل رونق اسٹیج کی تنگنائے میں سما گئی تھی۔

نئے پاکستان کا معمار عمران خان چھاتہ بردار نہیں، اس ملک کی جمہوری روایت سے انحراف کی چالیس سالہ کہانی ہے۔ عمران خان کو پاکستان کے ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے ووٹ دیا ہے، اس ملک کی حکومت اب ان کی امانت ہے۔ انتخابی عمل کے شفاف اور غیر شفاف ہونے کا فیصلہ مورخ کر لے گا، اور کہیں نہ کہیں یہ بھی لکھے گا کہ احتساب کی عدالتوں میں بار ثبوت ملزم سے مانگا جاتا تھا جبکہ انتخابی دھاندلی کے الزام پر ثبوت کا بار گراں مدعی پر رکھ دیا جاتا تھا۔

پاکستان میں انتخابی دھاندلی کی تاریخ استمراری ہے۔ ہم نے مرزا ابراہیم اور احمد سعید کرمانی کے انتخابی معرکے میں سید سعید جعفری کا جھرلو فراموش نہیں کیا۔ قصہ تب بھی مسترد شدہ ووٹوں کا تھا۔ ہمیں جگتو فرنٹ کی 301 نشستیں جیتنے والی حکومت کی معزولی یاد ہے۔

کل 80000 ووٹوں کے مقابلے میں مادر ملت کو معمولی فرق سے شکست دے کر فتح کا جشن منانے والا ہمیں بھولا نہیں۔ اس کا صاحب زادہ ابھی ایبٹ آباد میں انتخاب جیتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی 160سیٹوں کی اکثریت کو روندنے والے کا بیٹا اسلام آباد سے جیتا ہے۔ ہم نے تو دو ریفرنڈم جیتے ہیں۔ مہران بینک اسکینڈل اور مڈنائٹ جیکال ہمارے کارنامے ہیں۔ ہمارا حسب نسب قدیم مخطوطوں اور پرانی فائلوں میں محفوظ ہے۔

عمران خان اور ان کے پرجوش حامیوں کو انتخابی فتح مبارک ہو۔ حکومت بنانا اور چلانا ان کا آئینی، سیاسی اور اخلاقی حق ہے۔ الطاف گوہر نے 1972 میں لکھا تھا کہ ’’بھٹو صاحب آپ نے انتخاب جیتا ہے، پاکستان فتح نہیں کیا‘‘۔ مطلب یہی کہ حکومت آئین کے تابع ہے اور قوم کسی جماعت کی انتخابی فتح و شکست سے بالاتر حقیقت ہے۔

2010 کی اٹھارہویں آئینی ترمیم اس ملک کے وفاق کی امانت ہے، اس پر غیر محتاط نشتر زنی کے عواقب سنجیدہ ہوں گے۔ تشویش کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ساٹھ سال سے جو کشمکش چند چہروں کی صورت میں تجسیم پاتی تھی، وہ اب ادارہ جاتی صورت اختیار کر گئی ہے۔ انتخاب سے ایک رات پہلے تک عمران خان ریاست کے مستقل اداروں کی کھلی حمایت کرتے تھے۔ اب منتخب اداروں کا تحفظ ان کے کندھوں پر ہے۔

پچیس جولائی کو صرف ایک معرکے کا فیصلہ ہوا ہے، دلوں کی فتح اور شکست کی مہم تو ایک طویل راستہ ہے، ہم سب کو کسی نہ کسی مقام پہ گرد راہ ہو جانا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی حتمی منزل فیصلہ سازی میں شہریوں کی بالادستی ہے۔ آپ نے کرپشن کے جس مفہوم کی بنیاد پر انتخاب جیتا ہے، وہ کرپشن کی تصویر کا تیسرا حصہ بھی نہیں۔ آپ کے قافلے میں انگلیوں کے نشان چھوڑے بغیر دست کاری کے نمونے تخلیق کرنے والے تو موجود ہیں لیکن یہ نمک کے پتوار منجدھار میں کشتیاں چھوڑ جایا کرتے ہیں۔

عملیت پسند لوگ ہیں، ڈوبتے ہوئے جہاز میں چوہے کر بھی کیا سکتے ہیں؟ آپ نے اپنی ابتدائی گفتگو میں خارجہ امور پر اچھے اشارے دئیے ہیں لیکن ہماری مستقل خارجہ پالیسی کا بیانیہ اس قوم کی بے دست و پائی سے تشکیل پایا ہے، قیدیوں کی روبکار پر خوشنما تقریروں سے مہر ثبت نہیں ہوتی۔ آخری نکتہ یہ کہ حالیہ انتخابی مشق شفاف جمہوری عمل کے کسی معیار پہ پورا نہیں اترتی، ان داغ دھبوں کو آپ نے اپنی کارکردگی سے ختم کرنا ہے۔

فی الحال تو سیماب اکبر آبادی کا ایک شعر سن لیجیے، اگرچہ آپ کی انجمن میں سخن فہمی کا شہرہ نہیں ہے۔

ہے غارت چمن میں یقیناً کسی کا ہاتھ
شاخوں پہ انگلیوں کے نشاں دیکھتا ہوں میں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے