عالمی شہرت یافتہ کرکٹرعمران خان نے گزشتہ چند روز سے جمہوریت اور تجارت دونوں کام بیک وقت شروع کئے ہوئے ہیں۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پنچائتی سسٹم اور کوآپرٹیو کا ایک نظام مدتوں سے چلا آرہا ہے‘ جس نے اسے ایمانداری سے کر لیا‘ وہ اپنے اور ساتھیوں کے کاروبار کے ذریعے نہ صرف خوش حالی کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے‘ بلکہ آگے بڑھتے ہوئے لامحدود فوائد سے بھی مالا مال ہو سکتا ہے۔جن لوگوں نے ایمانداری سے یہ کام کیا‘ وہ نہ صرف بے حساب دولت کما سکتے ہیں بلکہ ملک کے نظام حکومت میں بھی حصے دار ہو سکتے ہیں۔
اس کا طریقہ بہت آسان ہے۔ایک باوقار اور قابل اعتماد شخص‘ جو اپنے دوستوں اور محلے داروں کے ساتھ باہمی اعتماد پیدا کر لے اوراپنی کوآپریٹو بنا کر اسے طے شدہ اصولوں پر چلنا شروع کر دے تو وہ جمہوری نظام میں نہ صرف خوش حال ہو سکتا ہے‘ بلکہ درجہ بدرجہ حکمران طبقے کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔ شروع میںجب کوآپریٹو سسٹم متعارف ہوا تو باہمی تعلقات اور ایک دوسرے پر اعتما د رکھنے والے‘ اس نظام کی طرف غلط ارادوں سے آگے بڑھنے لگے۔ جولوگ جمہوریت پر اعتماد رکھتے ہیں‘ وہ اپنے معاشرے کے نہ صرف ذمہ دار اور ذہین لوگ ہوتے ہیں‘ بلکہ امداد باہمی کے نظام کا حصہ بن کر عزت اور دولت دونوں کماتے ہیں‘ لیکن جمہوریت پر سب سے پہلے حملے کرنے والے‘ اپنے دور کے ٹھگ‘دھوکہ دہی اور اپنے تعلق داروں کو لوٹنے کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔چند لوگ ایسے تھے ‘جنہوں نے یہ نظام بد دیانتی سے اختیار کیا اور اپنے ساتھیوں اورعوام دونوں کو دھوکہ دیا۔
جن لوگوں نے جمہوریت اورامداد باہمی کے نظام پر اعتماد کیا‘وہ نہ صرف ایک دوسر ے پر بھروسہ رکھتے ہیں ‘بلکہ اپنے معاشرے کو پرامن‘ اعلیٰ انسانی صفات اوراقدار سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ میں اس فلسفے کی گہرائی تک جانے کی نہ صلاحیت رکھتا ہوں‘ نہ تجربہ لیکن عمران خان نے جب ”خدمت‘‘ کی دنیا میں قدم رکھا تو ”جمہوریت‘‘ جسے ٹھگوں اور لٹیروں نے‘ مجموعی طورسے فریب کاری کا نظام بنا رکھا تھا ‘ خان صاحب کا نام سنتے ہی چونک اٹھے اور چونکنا بھی چاہئے تھا۔ اس نظام کو اکثریت نے فریب کاری کے لئے اپنے ہاتھوں میں جکڑ رکھا تھا۔جیسے ہی ایک سپورٹس مین نے دیانت داری کی ہمہ گیرشہرت لے کر‘ چند قریبی دوستوں کی معیت میں‘ خدمت کاراستہ اختیار کیا توکامیاب رہنے والے ٹھگوں اور لوٹ مار کرنے والے گروہوں میں کھلبلی مچ گئی۔
شروع میں تو کسی نے توجہ نہ دی‘ لیکن جیسے ہی چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات میں بھگدڑ مچی اور دیہی اور شہری آبادی میں تھوڑی بہت جمع پونجی رکھنے والے لوگوں نے یہ سنا اور پڑھاکہ ہم اپنی جمع شدہ رقم سے‘ عزت کے ساتھ گزر اوقات کر سکتے ہیں ‘لیکن ایسا ہونے کون دیتا ہے؟جتنے با اثر اور زورِ بازو رکھنے والے چوہدری صاحب‘دولت اور طاقت پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں‘ وہ نچلے طبقے کے ایک چھوٹے یا متوسط خاندان کے کسی شریف آدمی کو‘عزت کی روٹی نہیں کھانے دیتے۔عام لوگوں کا ایک بڑا حصہ ضرور سوچ رہا ہوگاکہ وہ اس راستے پر چل کر‘ ایک اچھے ‘ باعزت اور پر امن معاشرے کا حصہ بن سکیں گے‘ مگر یہ ہونے کون دیتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ امداد باہمی کے نظام کو اجارہ داری میں بدل کر‘ اقتدار پر قبضہ کر لیا گیا۔ میں دیہی اور شہری آبادی کے ایسے تمام لوگوں کو انتباہ کرنا چاہتا ہوں کہ عمران خان جیسے قابل عزت اورقابل اعتماد شخص نے سادہ لوح شہریوں کو‘ اس نظام کے ذریعے لوٹنے والوں کے حواس باختہ کر دئیے۔
اگر شہری اور دیہی لوگ کھیتی باڑی‘تجارت اور دکانداری سے حق حلال اور عزت کی روٹی پر گزارہ کرنے والے‘ شریفانہ اور دیانت دارانہ معاشرہ قائم کرنے کے راستے پر چل نکلیں توان پر چاروں طرف سے چوروں اور ڈاکوئوں کے حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ پہلے وہ دولت کے ذریعے رزق حلال کھانے والوں کا راستہ روکتے ہیں۔ وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو غنڈہ گردی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سرکاری مشینری ‘جس میں تحصیلدار‘ پٹواری اور پولیس ‘بے رحمی سے آگے بڑھ کر اس متوسط گھرانے کا کاروبار اورپر امن زندگی ‘اجیرن بنا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسے دال روٹی کھانے والوں کو یا تو ان کی کمرتوڑ کے گھر بٹھا دیتے ہیں یا تشدد اور قید کی زندگی میں جھونک دیتے ہیں۔
محنت اور ایمانداری سے رزق کمانے والوں کو حلال کی روزی کھانے سے سرکاری مشینری یا اپنے غنڈوں کے ذریعے بے بس کر دیتے ہیں ۔ معاشرے کے بڑے بڑے ٹھیکیداروں اور بیورو کریسی کے آلہ کاروں کے ذریعے شریفانہ زندگی گزارنے والوں کو‘ امن اور عزت کے ساتھ نہیں جینے دیتے۔ عمران خان خوش حال اور ایمانداری سے تجارت اور کاروبار کرنے والوں کا حق چھیننا نہیںچاہتا ‘بلکہ انہیں یہ حق دلوا کر رہے گا۔اسمبلیوں میں جانے والے ”شرفا‘‘ اور اسلحہ کے زور سے کچلنے والوں سے‘ خان صاحب متوسط طبقے کا یہ حق‘ نہ صرف خود چھین لیں گے‘ بلکہ انہیں عزت‘ وقار اور سربلندی سے جینے کا طریقہ بھی سکھا دیں گے۔یہی وہ طریقہ ہے ‘جو اسلام نے ہمیں سکھایا ہے۔