کیا عمران خان چل پائینگے ؟

تحریک انصاف الیکشن جیت چکی، نتائج کا اعلان کر دیا گیا ،عمران خان پالیسی بیان بھی کر چکے ، آج عمران خان مقبولیت کی انتہاء پر ہیں ، پالیسی ساز ادارے انہیں پسند کرتے ہیں ، نواز شریف بوجھ بن چکے تھے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری تھا ، وقتی ہی سہی مگر نون لیگ خطرہ نہیں رہی ، سوال دو ہیں ، کیا عمران خان طاقتور حلقوں کیساتھ چل پائینگے ؟ دوسرا سوال اس سے بھی اہم ہے کیا عمران خان آسانی سے حکومت کر سکیں گے ؟

پہلے سوال کا جواب تو نفی میں ہے ، میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان طاقتور حلقوں کیساتھ چل سکیں گے ، طاقت ور حلقے خارجہ پالیسی کسی اور کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے ، وہ سول حکومتوں کو نا اہل سمجھتے ہیں ، سیاسی لوگوں کی وفاداریوں پر شک کیا جاتا ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی انکے ہاتھ میں رہے ، بھارت سے متعلق نرم رویہ نہ رکھا جائے ، مسئلہ کشمیر پر وہی موقف رہے جو اسٹیبلیشمنٹ کا ہے ، اور اب اس قضیے میں افغانستان بھی شامل ہو گیا ہے ، افغانستان کے مسئلے کو بھی اسٹیبلشمنٹ سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتی ،افغانستان کا مسئلہ کچھڑی کی شکل اختیار کر چکا ہے ، افغانستان کی سرزمین سے چھیڑ چھاڑ جاری رہتی ہے ، الزام تراشیاں روز کا معمول بن چکا ہے ، یہ وہ مسائل ہیں جن پر اسٹیبلیشمنٹ سیاسی لوگوں کو من مانی نہیں کرنے دیتی ، جو بھی اس گلی کا رخ کرتا ہے اسے آگے بند گلی دکھائی دیتی ہے ، نواز شریف کے جرائم میں یہ چیزیں بھی شامل ہیں ، عدالتی فیصلے میں یہ نہیں لکھا ہوا مگر دیوار پر یہ سب باتیں لکھی دکھائی دیتی ہیں، انکا اسٹیبلشمنٹ سے اصل مسئلہ بھارت و افغانستان کی پالیسیاں تھیں ، وہ بھارت کیساتھ جنگی ماحول کے حق میں نہیں تھے ، وہ افغانستان کے مسئلے پر بھی اسٹیبلیشمنٹ سے نالاں تھے ، وہ سعودیہ و ایران کے معاملے میں بھی ثالثی کے قائل تھے ، انہوں نے اپنے آپ کو یمن جنگ سے بھی دور رکھا ، وہ کالعدم جماعتوں کی سرگرمیوں کو بھی روکنا چاہتے تھے ، انہیں نے اس گلی میں جانے کا انتخاب کیا جو آگے سے بند ہے ، جہاں ننگی تاریں ہیں،ننگی تاروں کو چھیڑنے کا نتیجہ سبھی جانتے ہیں نا ؟ اسی لیے تو جیل بھگت رہے ہیں ، عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں انہی مسائل پر گفتگو کی جن پر میاں نواز شریف بند کمرے میں گفتگو کیا کرتے تھے ، عمران خان نے بھی بھارت دشمنی کی بجائے تجارت کی بات کی ، افغانستان کے حوالے سے وہ باتیں کہیں جو ماضی میں کوئی منتخب وزیر اعظم نہیں کہہ سکا ، کشمیر کے مسئلے کو بھی فوجی نگاہ سے نہیں سیاسی نگاہ سے حل کرنے کی بات کی ، انہوں نے ماضی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کی ، دوسرے ملکوں میں مداخلت کی پالیسی کو ناپسند کیا ، عمران خان کا ماضی میں بھی یہی موقف رہا ، اس وقت تو وہ اپوزیشن میں تھے اب اقتدار میں آ گئے ہیں ، اگر انہوں نے اپنی اسی پالیسی کو جاری رکھا تو پھر عمران خان اور نواز شریف میں فرق نہیں رہے گا ، وہ بھی مودی کے یار ٹھہرائے جائینگے اور ٹیریان کیس میں گھر بھی جا سکتے ہیں ، دیکھتے ہیں عمران کب تک محبوب رہتے ہیں ، انکے ناز و نخرے کب تک برداشت کیے جاتے ہیں ؟ انہیں کب تک لاڈلہ رکھا جاتا ہے ؟ انتظار ہے ہمیں بھی اور قوم کو بھی ،

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان آسانی سے حکومت کر سکیں گے ؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے ، عمران خان کم سیٹوں پر راضی نہیں تھے ، وہ اتحادی حکومت نہیں چاہتے تھے ، انہوں نے الیکشن سے پہلے ہی دو باتیں تسلسل کیساتھ کہنا شروع کر دی تھیں کہ آزاد امیدواروں کو ووٹ نہ دیے جائیں اور یہ بھی کہا اگر مجھے کم سیٹیں ملیں تو میں اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کرونگا ، انہیں سیٹیں تو مل گئیں مگر اپوزیشن میں سے کسی ایک جماعت نے بھی ان نتائج کو قبول نہیں کیا ، کچھ حلقے کھلے جہاں سے پی ٹی آئی کو شکست ہوئی ، دھاندلی کا شور بلند ہے ، اپوزیشن نون لیگ کے پاس ہو گی اور تنگ کرنے کے لیے مولانا بھی فارغ بیٹھے ہونگے ، قومی سطح کے لیڈر جب باہر فارغ بیٹھے ہونگے تو پھر وہ تسبیح نہیں پھیریں گے بلکہ عمران خان کو تنگ کیے رکھیں گے ، انہیں ٹھنڈی سانس نہیں لینے دینگے، عمران خان نے اگر کارکردگی دکھا دی تو پھر یہ لوگ بے اثر ٹھہریں گے نہیں تو عمران خان انتقام کی راہ چل کر اپنے لیے مزید مسائل کھڑے کر دینگے ، ابھی تو انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ کسی سے انتقام نہیں لینگے مگر جب دعووں پر عمل نہ کر سکے تو پھر ٹکرانا پسند کرینگے ، دیکھتے ہیں عمران خان اپوزیشن سے کیسے نمٹتے ہیں ؟ دھاندلی کے الزامات کا کیسے سامنا کرتے ہیں؟ اپنے دعووں پر کس حد تک عمل کرتے ہیں ؟ اور سب سے اہم بات کہ اسٹیبلیشمنٹ کے محبوب کب تک رہتے ہیں ؟ آئی ایس آئی کے سابق میجر عامر سے ایک بار ڈاکٹر شاہد مسعود نے پوچھا تھا اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے زیادہ خلاف ہے یا بینظیر بھٹو کے ؟ انہوں نے بڑی عجیب بات کہی ، انہوں نے کہا تھا اسٹیبلیشمنٹ ہر اس شخص کے خلاف ہے جو عوام میں مقبول ہے ، عمران خان کو اپنی مقبولیت پر ناز تو ہے مگر کب تک ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے