یہ جو وقت ہے مرے شہر پر

مجھے کالم لکھتے اب تقریباً 34برس ہو چلے ہیں‘ یہ کل ملا کر تقریباً دو ہزار کالم بنتے ہیں جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ میرے آٹھ کالماتی مجموعوں میں بھی محفوظ ہیں لیکن ان میں سے 90% کے موضوعات ادب‘ تاریخ‘ ثقافت‘ نئی کتابیں اور مختلف شخصیات پر لکھے گئے تعزیتی کالموں پر مشتمل ہے یعنی زیادہ سے زیادہ 10% کالم ایسے ہیں جن کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق سیاست یا اس سے متعلقہ مسائل سے قائم ہو سکتا ہے۔

اس گریز اور احتیاط کی یوں تو بہت سی وجوہات ہیں اور ہو سکتی ہیں لیکن میرے نزدیک اس کا بنیادی سبب ہمارے بیشتر اہل سیاست کے وہ ذہنی رویے ہیں جن کی بنیاد حقائق سے زیادہ تعصبات اور حقوق سے زیادہ تحفظات پر استوار ہے۔ اوپر سے بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کے فروغ اور تسلسل میں ناکامی کے باعث کچھ ایسی کھچڑی پک گئی ہے کہ کچرا صاف کروانا سڑکیں بنوانا اور قومی سطح پر پالیسیاں بنانا ہر کسی کا مشترکہ فریضہ بن گیا ہے۔

بلاشبہ ہمارے جیسے تیسری دنیا کے نوآزاد اور ترقی پذیر ملکوں میں یہ منظر اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کے کئی معاشرے بہت تیزی اور کامیابی سے اس مرحلے کو نہ صرف عبور کر چکے ہیں بلکہ اب ان کی سیاسی بلوغت ساری دنیا کو نظر بھی آ رہی ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ سیاسی مسائل، جھگڑوں اور اختلافات پر قدرے اوپر اٹھ کر اور اپنے ذاتی میلانات کو دخل اندازی سے روک کر ملکی اور قومی سطح پر محبت‘ برداشت‘ تعاون اور تعمیر و ترقی کی بات کی جائے تاکہ ہم اس منظر کو بدل سکیں۔

سو ہوا کچھ یوں ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی انتخابات یا کسی قدرتی آفت یا دہشت گردی کی کسی بڑی واردات کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے سیاسی کالموں کی تعداد ایک دم بڑھ جاتی ہے اور اصولی اور فطری گریز کے باوجود ان موضوعات پر تسلسل سے لکھنا پڑ جاتا ہے، آج کل بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے، ممکن ہے الیکشن کمیشن سے انتظامات میں وہ سب خرابیاں موجود ہوں جن کا اظہار بہت شدت سے کیا جا رہا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی وجہ سے کہیں کہیں انفرادی حوالے سے کسی بدنظمی یا بے انصافی کا مظاہرہ بھی کیا گیا ہو لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا (غلط یا صحیح) پی ٹی آئی کی قبولیت کی ہوا ان نتائج کے اعلان سے قبل چاروں طرف نہ سہی وطن عزیز کے زیادہ تر حصے میں پہلے سے نہیں چل رہی تھی؟ اور یہ کہ کیا عوام کی ایک غالب اکثریت اس کا سرعام اظہار نہیں کر رہی تھی! پری پول رگنگ کے الزامات ہوں یا فارم 45وغیرہ کے معاملات انتخابی سرویز یا عمومی عوامی رویے میں یہ بات واضح تھی کہ اس وقت رائے عامہ تین ترجیحات کے درمیان تذبذب میں مبتلا ہے کہ وہ ان میں سے کس کی طرف جائے

-1 مسلم لیگ ن کی خدمات‘ پرفارمنس اور اچھے کاموں کا بیانیہ

-2میاں محمد نواز شریف کا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا بیانیہ

-3 عمران خان کا کرپشن مٹاؤ اور تبدیلی کا بیانیہ

انصاف سے دیکھا جائے تو ان تینوں بیانیوں کے بہت سے مثبت پہلو بیک وقت عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا رہے تھے لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ تیسرے اور آخری یعنی عمران خان کے تبدیلی والے بیانیے کے پیچھے تقریباً نصف کروڑ وہ نوجوان ووٹرز بھی تھے جو پہلی یا زیادہ سے زیادہ دوسری بار اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے تھے اور جن کے اکثر کو سمجھنے میں غالباً دیگر سیاسی جماعتوں نے زیادہ توجہ اور تفکر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ موجودہ ذہنی فضا میں اس کی ایک خاص حد سے زیادہ توقع بھی ممکن نہیں لیکن امید یہی رکھنی چاہیے کہ ہارنے اور جیتنے والے دونوں تحمل اور حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ سیاسی بلوغت کا بھی مظاہرہ کریں اور ایک دوسرے کے بجائے وطن عزیز کی سلامتی بہتری اور ترقی کو سامنے رکھیں اور اپنی دعاؤں میں بھی اسی بے لوث محبت کا اظہار کریں جو ہم سب کا مجموعی وژن اور اجتماعی ورثہ ہے۔

یہ دعا آج سے 24برس قبل 11فروری 1994 کو نظم کی شکل میں ڈھلی تھی لیکن اس کا ایک ایک حرف آج بھی اتنا ہی تازہ اور تاثیر طلب ہے جتنا ربع صدی قبل تھا۔ دعا اور قبولیت دعا کے درمیان جو وقفہ ہے اس کی حقیقت‘ نوعیت اور غائت سے وہی رب کریم واقف ہے جس کے سامنے ہم سب عرض گزار ہوتے ہیں تو آئیے اس التجا کے ساتھ اسے دہراتے ہیں کہ وہ اپنے کرم سے اس کو قبول فرما دے کہ ہم اور ہمارے بچے ایک بہتر فضا میں سانس لینے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیر و ترقی میں اپنے اپنے حصے کا کام بھی پوری محنت اور جانفشانی سے کر سکیں

یہ جو وقت ہے مرے شہر پر

یہ جو وقت ہے مرے شہر پر کئی موسموں سے رکا ہوا

اسے اذن دے کہ سفر کرے

اسے حکم دے کہ یہ چل پڑے مرے آسمان سے دور ہو

کوئی چاند چہرا کشا کرے‘ کوئی آفتاب ظہور ہو

کہ نواح چشم خیال میں وہ جو خواب تھے وہ دھواں ہوئے

وہ جو آگ تھی وہ نہیں رہی‘ جو یقین تھے وہ گماں ہوئے

کوئی دھند ہے جسے دیکھتے میری آنکھ برف سی ہو گئی

وہ عبارت سر لوح دل‘ کسی ربط سے نہیں آشنا

کہ جو روشنی تھی کتاب میں‘ وہی صرف حرف سی ہو گئی

کوئی گرد باد اٹھے کہیں کسی زلزلے کی نمود ہو

یہ جو ’سبت‘ ہے مرے چار سو کوئی معجزہ کہ یہ ’’بود‘‘ ہو

مری آنکھ میں جو یہ رات ہے‘ مری عمر سی‘ اسے ٹال دے

مرے دشت ریگ ملال کو کسی خوش خبر کا غزال دے

یہ فلک پہ جتنے نجوم ہیں ترے حکم کے ہیں یہ منتظر

وہ جو صبح نو کا نقیب ہو‘ مری سمت اس کو اچھال دے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے