گورکن

انتخابات کے نتائج کیا کسی بڑی سماجی تبدیلی کی خبر ہیں؟

حرکت زندگی کا بنیادی وصف ہے۔ جمود موت کا دوسرا نام ہے۔ یہی سبب ہے کہ بد ترین حالات میں بھی زندگی کا سفر رکتا نہیں۔ زندگی، عراق میں، اس وقت بھی رواں دواں رہتی ہے جب آسمان سے بارش کی طرح بارود اور آگ‘ برستے ہیں۔

افغانستان میں بھی اس کے قدم رکتے نہیں جب بہت سے لوگ پہلی بار ‘کارپٹ بمبنگ‘ کے تصور سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہ آج بھی شام میں آگے بڑھ رہی ہے جہاں ہر شہر مقتل اور ہر آدمی بیک وقت قاتل بھی ہے اور مقتول بھی۔

اس اصول پر، پاکستان میں بھی زندگی کو آگے بڑھنا ہے۔ انتخابات کے بعد بھی، جن کے نتائج کو قوم کے ایک بڑے حصے نے مسترد کر دیا ہے۔ بعد از انتخابات منظر نامے کو، سماج کا یہ طالب علم غور سے دیکھ رہا ہے۔ اس کے ذہن میں ایک سوال ہے: کیا انتخابی نتائج کسی معاشرتی تبدیلی کی خبر دے رہے ہیں؟

کیا ہمارا سماج کسی ارتقا سے گزر رہا ہے؟ یہی سماجی ارتقا ہے جسے ہم عرفِ عام میں تبدیلی کہتے ہیں۔

دو طرح کے محرکات کسی سماجی تبدیلی کو ممکن بناتے ہیں۔ ایک وہ جن کی باگ ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ اسے ہم تاریخ کا جبر کہتے ہیں۔ اس جبر کے نتیجے میں جو تبدیلی آتی ہے، اس کے سامنے بند نہیں باندھا جا سکتا۔ تاریخ کا فیصلہ اپنے نفاذ کے لیے کسی خارجی قوت کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ قوتِ نافذہ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ جو اس کا انکار کرتا ہے، وہ مٹ جاتا ہے۔ زندہ رہنے کے لیے طوعاً و کرہاً اسے قبول کرنا پڑتا ہے۔

بعض اوقات ہم زبان سے انکار کرتے ہیں لیکن عمل سے اس کی شہادت دے رہے ہوتے ہیں۔

تبدیلی کا دوسرا محرک انسانی جدوجہد ہے۔ انسان اپنی کوششوں سے معاشرے کو کسی نئے خیال یا طرزِ عمل سے روشناس کراتا ہے۔ پیہم کوشش سے اسے قبولیتِ عامہ حاصل ہو جاتی ہے اور یوں وہ معاشرے کا چلن بن جاتا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل بالعموم صبر آزما ہے۔ اس کوہ کنی کے لیے فرہاد کا جگر چاہیے۔ کسی فرد یا گروہ کی کوشش، یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری نسل میں جا کر نتیجہ خیز ہو۔ یہ کام وہی کر سکتا جو اپنے عہد کے بجائے تاریخ میں جینے کو ترجیح دیتا ہے۔

2018ء کے انتخابات بعض ایسی تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں جو تاریخ کے جبر کا نتیجہ ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں یہ تبدیلیاں معاشرے میں سرایت کر چکی ہیں۔ بعض دیگر مشاہدات بھی ان کی موجودگی کی خبر دیتے ہیں مگر انتخابات کے نتیجے میں یہ مزید نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں۔ میں یہاں دو بڑی تبدیلوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی تبدیلی نوجوانوں کا عملی سیاست میں متحرک ہونا ہے۔ تحریکِ انصاف کی جیت میں ان کا کردار بنیادی ہے۔ معلوم ہے کہ پاکستان کی آبادی کا کم و بیش ساٹھ فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ عمر بھی رومانوی ہوتی ہے۔ ووٹر کی عمر اگر اٹھارہ سال نہ ہوتی اور گزشتہ کئی سال سے وہ ایک ہیجان آمیز مہم کا ہدف نہ ہوتا تو نتائج بالکل مختلف ہوتے۔ میں یہاں نوجوانوں کے اس تحرک کو نئی سماجی تبدیلی کے ذیل میں بیان کر رہا ہوں۔

ماضی میں یہ نوجوان طبقہ عملی سیاست سے لا تعلق رہا۔ اس کے اسباب پر گفتگو ہو سکتی ہے مگر امرِ واقعہ یہی ہے۔

یہ سیاسی اعتبار سے وہ نیم خواندہ طبقہ ہے‘ جو سیاسی حرکیات سے واقف ہے نہ تاریخ سے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے اس کے لیے کچی پکی معلومات کا ایک دروازہ کھول دیا ہے جس کی بنیاد پر وہ رائے قائم کرتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عمران خان کی شخصی کشش نے اُسے آمادہ کیا کہ وہ سیاست میں متحرک ہو۔

ہیجان اور رومان کے زیرِ اثر، وہ تبدیلی کو امرِ واقعہ بنتے دیکھ رہا ہے۔ اس طبقے کا متحرک ہونا، معاشرے کے لیے ایک اچھا شگون یا برا، اس کا فیصلہ عمران خان کی کارکردگی کرے گی۔

دوسرا محرک سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت ہے۔ رائے سازی کا پہلا مرحلہ معاشی خود مختاری ہے۔ جب کوئی فرد یا طبقہ معاشی طور پر آزاد ہوتا ہے تو پھر وہ فیصلہ سازی میں بھی اپنا کردار چاہتا ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ خاموش تبدیلی دھیرے دھیرے سرایت کر رہی تھی۔ خواتین تیزی کے ساتھ معاشی عمل کا حصہ بن چکی ہیں۔ اب انہیں گھر ہو یا ملک، رائے دینے سے روکا نہیں جا سکتا۔ یہ بچوں کی شادی کا معاملہ ہو یا وزیر اعظم کا انتخاب، اس کا فیصلہ خواتین کی شرکت یا ان کی رائے کو وزن دیے بغیر نہیں ہو سکتا۔

یورپ میں بھی جب جمہوری عمل کا آغاز ہوا تو ووٹ کا حق معاشی خود مختاری سے مشروط تھا۔ ہمارے ہاں بھی انگریزوں کے دور میں اسی کو رائے دینے کا حق تھا‘ جس کے پاس زمین ہوتی تھی اور اس کی بھی حد مقرر تھی۔ ایوب خان نے یہ حق صرف بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو دے رکھا تھا۔

‘کنٹرولڈ ڈیموکریسی‘ کا یہ تصور بہت بعد میں عوامی جمہوریت میں بدلا اور ہر شہری کو ووٹ کا حق ملا۔ ہمارے ہاں قانونی طور پر تو خواتین کو یہ حق حاصل تھا لیکن سماجی سطح پر خواتین اتنی طاقت ور نہیں تھی کہ وہ اپنا یہ حق منوا سکیں۔ سماجی حقیقت بدلی تو خواتین کا سماجی کردار بھی بدل گیا۔

ان انتخابات میں خواتین نے گھر کے مردوں سے اعلانیہ اختلاف کیا۔ پہلے یہ واقعات اکا دکا ہوتے تھے۔ اس بار ان میں غیر معمولی اضافہ سامنے آیا۔ میرے ایک دوست کے پی کے ایک دور افتادہ گاؤں میں ایک پولنگ سٹیشن پر سرکاری ذمہ داری ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ مردوں کی قطار بعد دوپہر ختم ہو گئی مگر خواتین کی قطار سرِ شام بھی ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھی۔

یہ ایک ناگزیر سماجی تبدیلی ہے جس کا اب شعوری سطح پر بھی ادراک ہونا چاہیے۔ خواتین کو اب آزادانہ رائے قائم کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ ایک اور ضمنی سوال بھی اس باب میں محلِ تحقیق ہے: کیا سبب ہے کہ خواتین کی بڑی تعداد عمران خان کی ووٹر ہے؟ سماجیات کے ماہرین کو اس پر سوچنا چاہیے۔

تاریخ کے جبر کے تحت آنے والی تبدیلیاں اور بھی ہو سکتی ہے جن کو تلاش کیا جا سکتا ہے؛ تاہم یہ انتخابات کسی ایسی تبدیلی کی نشان دہی نہیں کر سکے جسے شعوری جدوجہد کا حاصل کہا جائے۔

واقعہ یہ ہے کہ اس باب میں معاشرے نے پچھلی سات دہائیوں میں کسی بڑے ارتقا کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ ‘سٹیٹس کو‘ کی وہ طاقتیں جو انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں سیاسی عمل کی صورت گری کر رہی تھیں، آج بھی اسی طرح متحرک ہیں اور سیاسی منظرنامے کی تشکیل میں اساسی کردار ادا کر رہی ہیں۔

چند روز پہلے کسی نے مجھے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک تحریر بھیجی جو 1962ء میں لکھی گئی تھی۔ پڑھی تو پہلے بھی تھی لیکن اس کی تازگی نے ایک بار پھر اپنے حصار میں لے لیا۔ اگر محرر اور تاریخ درج نہ ہو تو پڑھنے والا خیال کرتا ہے کہ یہ آج لکھی جانے والی تحریر ہے۔ افسوس یہ ہے کہ میں آج اگر اس تحریر کو اپنے کالم میں نقل کروں تو وہ ناقابلِ اشاعت قرار پائے۔

اس سے بھی اندازہ کیا جا سکتا کہ سات دہائیوں میں ہمارے ہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں وہ تبدیلیاں تو آئیں جو تاریخی جبر کا نتیجہ تھیں لیکن وہ تبدیلیاں نہیں آ سکیں جن کا راستہ ‘سٹیٹس کو‘ کی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے روک رکھا ہے۔

ان قوتوں کی خواہشات کے برخلاف، تبدیلی کی جدوجہد اہلِِ دانش کا کام ہوتا ہے۔ یہ طبقہ نئے خیال کی فصل بوتا ہے۔ مالی کی طرح اس کی رکھوالی کرتا ہے۔ دانش ور اگر ‘سٹیٹس کو‘ کی قوتوں کا وکیل بن جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو اب ہو رہا ہے۔

پھر سب مٹی ڈال کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں جیسے ماضی کوئی لاش ہے اور سب کو دفنانے کی جلدی ہے۔

جو قوم ماضی کو عبرت کے بجائے لاش سمجھے، وہ صرف قبرستان آباد کر سکتی ہے۔ کیا آج دانش کے لبادے میں صرف گورکن باقی ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے