سیاسی فرقے

کڑکتی دھوپ میں چمکتے سورج کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہم اپنے بچپنے کی ایک دوپہر پوری لگن کے ساتھ گلی میں کرکٹ کھیلنے میں مشغول تھے ہماری وکٹ کے اس پار مسجد کی دیوار کے ساتھ بڑے شہتوت کے نیچے بابا غفور اور تایا رمضان چارپائی ڈالے اپنی جوانی کے دنوں کے قصے ایک دوسرے کو سنا رہے تھے وکٹ نزدیک تھا سو ہر بال کو پھینکتا کھلاڑی اور وکٹ پر موجود توپ بیٹسمین فرنگی کھیل کے ساتھ دیسی باتوں کا مزہ برابر لے رہے تھے

اچانک!! بابا غفور کی آنکھوں میں نمی امڈ آئی اور عصر کی آذان سے ذرہ پہلے دونوں بزرگ آزادی کے وقت کے واقعات دوہرانے لگے ماحول میں سناٹا دیکھ ہم بھی کرکٹ چھوڑ بزرگوں کی طرف ہو لئے

بابا غفور ان الفاظ کے ساتھ تایا رمضان کی داد وصولنے کے لئے اپنی سفری مشقت بیان کر رہا تھا”یار رمضان اما کیا دن تھے جب ہم ہندستان سے ادھر یہاں کی طرف چلے تھے غجب ماحول تھا ہر ایک کو جان کی پڑی تھی لیکن برابر پاکستان کی طرف چل رہے تھے یہ لاشیں بکھری پڑی ہیں وہاں دور کسی کے کراہنے کی آواز آرہی ہے اور یہ ہمسائی نذیراں کا بچہ وہاں آزادی پھیلتے ہی کسی نے کاٹ گرایا”

تایا رمضان بولا "یار غفور او سب تے ٹھیک اے پر تسی رستے وچ کھاندے کی سی؟؟؟؟

بابا غفور: کچھ نئیں تھا ہمارے پاس جو لب جاندا کھا لیندے سی”بڑے ہی قیامت دن تھے یار بے سروسامانی کی ہجرت تھی سب چھوڑ چھاڑ دیا تھا ادھر ہندستان میں” (واقعے کے بیچ پھر سے تایا رمضان نے لقمہ دیا کہ غفوریا کھاندے کی سی؟؟

باباغفور جذبات پہ قابو نہ رکھ پائے اور اپنی داہنی ٹانگ کو گھما کے تایا رمضان کی کمر پہ ٹکا دیا اور تایا رمضان کی کمر بھی کچھ دیر کے لئے ہجرت زدہ ہو گئی بابا غفور نے تب بتایا کہ جس بیل پہ ہم سوار تھے اسے ذبح کر کے اسکے پائے تک کھا لئے گئے تھے

لیکن جس وطن کی آزادی کے خواب دیکھے تھے لٹتے گرتے پڑتے اس دھرتی پر آ ہی پہنچے بڑی قربانی دی ہم نے رمضان بڑی ہی قربانی دی اس ملک کی خاطر ان بچوں کو یہ سب سنانا ہمارا فرض ہے ایک نا ایک دن یہ ہمارے سفر کی تھکن کو سمجھ ہی جائیں گے

عصر کی آذان سنتے ہی تایا رمضان کمر سہلاتا مسجد کی جانب چل دیا اور ہم بھی اسکے پیچھے ہو لئے مسجد میں منظر یہ تھا کہ تایا رمضان اور بابا غفور اس بزرگ لڑائی کے باوجود ایک ساتھ باجماعت نماز ادا کر رہے تھے اور مغرب سے ذرا پہلے دونوں ایک ساتھ حقے کے کش بھر رہے تھے موڈ بھی ایک دم ٹھیک تھا

یہ واقع اسلئیے یاد آگیا کہ ابھی حالیہ الیکشن گزر گیا نئی حکومت کے لئے سیاسی میدان میں مویشی منڈی کے جیسے رش ہے پارٹی کے ٹیگ والے امیدواروں سے زیادہ آزاد امیدوار کی مانگ ہے

لیکن اس بیچ ہمارا معاشرہ کئی سیاسی فرقوں میں بٹ گیا یوں تو کرہ ارض پہ بہت سےمذہب اور سینکڑوں زبانیں ہیں جن کے پیرو کار اور بولنے والے دوسرے انسانوں کو کسی حد تک ادب اور اخلاص سے ملتے ہیں مگر سیاسی فرقہ واریت کا رنگ بہت بھیانک ہے اسمیں مذہب رشتے داری ذات پات اونچ نیچ سے مقدم سیاسی دشمنی ہے اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس فرقہ واریت کا شکار ملک کا نوجوان طبقہ بڑی ہی تیزی سے ہو گیا ہے

دور جدید ہے اور سامان حرب بھی جدید ہے مطلب ہر سیاسی جماعت کی ایک فوج کے تین تین ونگ ہیں جس میں ایک ونگ ظاہری طور پہ جنگ لڑ رہا ہے اور سب کے سامنے ہے ایک ونگ آئیندہ کی متوقع صورتحال پہ تیاری میں جٹا ہے اور خطرناک سب سے مہلک ونگ سماجی رابطے کے ہتھیاروں سے ایک دوسرے کو چت کرنے کی کوشش میں ہے

روایتی جنگوں سے ہٹ کر سیاسی فرقوں کی جنگ ہر طرح کے جنگی قوانین سے آزاد ہے جس میں اخلاقیات کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں رکھا جاتا اور آئے روز ایک دوسرے کے جلسے کی تصاویر میں خواتین کو لیکر نئے نئے فقرے کس کر ایک دوسرے کو بتلایا جاتا ہے کہ ہم اس قدر گر چکے ہیں اور دوسری پارٹی کا ونگ اس سے زیادہ شدت سے اپنا فرض نبھاتا ہے سیاسی نام اور لطیفوں کی بھی خوب بھرمار ہے یہ سب بھی اخلاقیات سے عاری ہیں

رشتوں اور آپسی تعلقات کو سیاسی پارٹی سے وابستگی کے ساتھ تولا جا رہا ہے ہمارے ایک دوست کی ڈیجیٹل معشوقہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ تم اور تمہارے دوست اگر میری من چاہی پارٹی کو سپورٹ نہیں کرو گے اور میری پارٹی کے خلاف ڈیجیٹل دانشوری جھاڑنے سے باز نہ آئے تو فیس بک پہ طلاق دے کر رقیب کے پیج پر پیار کا پروانہ چڑھا دوں گی میرا بھولا دوست اس دوشیزہ کو ابھی تک دیکھ بھی نہ پایا ہے کہ سیاسی بخار اسکے فیس بکی پیار کا دشمن ہو گیا

کچھ یہ ہی حال ہمارے رشید چچا کے پڑھے لکھے خاندان کے ساتھ ہوا کہ رشید چچا کے بیٹے سلطان بھائی کی بیوی صرف اسلئیے روٹھ کر میکے جا پہنچیں کہ سلطان بھائی مذاق میں کھانا بناتی بھابھی کو کہہ بیٹھے کے تمہارے لیڈر کی خوب چھترول ہو گئی آج پھر کیا تھا بھابھی نے ببلو کو اٹھایا اور چولہےپر چڑھی بنڈھی گوشت کے سالن کے نیچے آنچ تیز کر کے میکے کو ہو لیں سلطان بھائی اور انکے اہلیخانہ کو سیاسی انتقام کی پاداش میں جلا ہوا کھانا تناول کرنا پڑا اور بھابھی شرط رکھ گئیں کہ میرے لیڈر کے لیے پیار بھری پوسٹ فیس بک پہ شئیر کر دینا اور آکر لے جانا مجھے میکےسے

خیر ایسی ہی ڈھیروں کہانیاں اس سیاسی فرقہ واریت سے جڑی ہوئی ہیں سیاسی شعبدے باز اپنے مقاصد کی خاطر اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کو ایک دوسرے کا جانی اور اخلاقی دشمن بنا کر
خود حکومتی ایوانوں میں جانے کے سپنے سجا رہے ہیں

موجودہ صورتحال کے پیش نظر آئیندہ آنے والے دس بیس سالوں میں والدین اپنی بہادری کے قصے اپنے بچوں کو موبائل ، ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ پر دکھا کر یوں فرما رہے ہوں گے کہ دیکھو میں نے سنی کے پاپا کو کیا کمنٹ دیا ہے پورے 40 لائیکس ملے ہیں اور بچے سکولوں میں ایک دوسرے کو اس بات پہ چڑھا رہے ہوں گے کہ میرے والد یا والدہ نے تمہارے ماما یا پاپا کو کیا دھواں دار کمنٹ دیا ہے تم تو سکول میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے

اس سیاسی فرقہ واریت پہ دانشوروں ادیبوں اور صحافیوں کو سوچنا چاہئیے کہ آئیندہ آنے والی نسل کو نئی فکر اور ترقی کی سوچ کا تحفہ دینا ہے یا اسی سیاسی فرقہ واریت کی شدت ہم آئیندہ آنے والی نسل کو ورثے میں دیں گے

یاد آیا!!!!
بابا غفور اللہ کو پیارے ہو گئے اب تایا رمضان اکیلے حقے کے کش بھرتے ہوئے گہری سوچ میں گم رہتے ہیں کہ آنے والی نسل کو آزادی کا مطلب اور بھائی چارے کا درس کون دے گا؟؟ انہیں کون بتائے گا کہ وقتی لڑائی کے فوری بعد صلح کر کے رشتوں کو کس طرح بچایا جاتا ہے میں ہم اور آپ ابھی سے اس گھمبیر مسلے کا حل نکالنے پہ سوچنے لگیں تو آئیندہ آنے والی نسل کا بھلا ہو گا

ورنہ یہ سیاسی فرقہ واریت اس قدر جڑ پکڑ جائے گی کہ لوگ اسلئیے گھروں میں محصور ہونا شروع ہو جائیں گے کہ ہمسائے کی سیاسی پارٹی اور ہے دروازے میں سامنا ہو گیا تو دن خراب گزرے گا ، فلاں کے ہاں آج دعوت ہے مگر انکی پارٹی الگ ہے ہمارا وہاں جانا بنتا نہیں ، پارٹی کے باہر بچے کا رشتہ کریں گے تو پارٹی والے کیا سوچیں گے؟ کل ساتھ والی خالہ نے میٹھے چاول بھیجے منے کے اماں مجھے لگتا ہے انہوں نے پارٹی چھڑوانے کا دم کروایا ہو گا وغیرہ وغیرہ

خدارا سیاسی راہنما ، اساتذہ ، مفکر ، ادیب اور صحافیوں اور ہر فرد ملت سے گذارش ہے کہ آج کی نوجوان نسل کو سیاسی نشے سے باز کروانے کے لئے کوششوں پہ دھیان دیا جائے معاشرے کی اخلاقی قدروں پر پہرہ دیتے ہوئے سیاسی فرقہ واریت سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کا آغاز کیا جائے کیونکہ
ہم ایک ہیں
اور
ہم پاکستانی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے