یہ سادگی بہت مہنگی پڑے گی

میں ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعظم آفس سمیت ملک کے تمام گورنر ہاؤسز‘ چیف منسٹر ہاؤسزاور کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی ہاؤسز کے خلاف ہوں‘ یہ بڑی بڑی عمارتیں‘ نوکروں کی فوجیں اور ہاؤسزکا کروڑوں روپے کا بجٹ ہمارے حالات‘ عوام کی غربت اور اسلامی فلاسفی سے میچ نہیں کرتا‘دنیا کے جس ملک میں لوگ روٹی‘ پانی اور دواء کے لیے ترس رہے ہوں وہاں یہ ایوان ظلم اور زیادتی ہیں چنانچہ میں سمجھتا ہوں ہمیں بھارت کی طرح 1947ء سے سادگی کو اپنا شعار بنا لینا چاہیے تھا لیکن ہم نے قرض کی مے کو اپنا لائف اسٹائل بنا لیا۔

ہم نے ستر سال کشکول لے کر بھیک مانگی اور اس بھیک کا کڑاہی گوشت کھا گئے لیکن یہ بھی بہرحال اس ماضی کا حصہ ہو چکا ہے جسے شاید قدرت بھی تبدیل نہیں کرسکتی‘ عمران خان اب سادگی اختیار کرنا چاہتے ہیں‘ یہ حکومت کے بڑے بڑے ایوانوں میں یونیورسٹیاں‘ ہوٹل اور میوزیم بنانا چاہتے ہیں‘یہ ضرور بنائیں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے یہ شاید اب ممکن نہ ہو‘ کیوں؟ ہمیں اس کیوں کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ان ایوانوں کا پس منظر جاننا ہو گا۔

پاکستان کا دارالحکومت 1967ء میں کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہوا‘ ایوب خان صدر تھے‘ صدر کی رہائش کے لیے ایوان صدر اور صدارتی دفتر کی ضرورت تھی‘ ملک کی قدیم شراب ساز کمپنی مری بروری کے پارسی مالکان نے راولپنڈی میں اپنے گھر کی انیکسی ایوب خان کو گفٹ کر دی‘ یہ انیکسی صدارتی رہائش گاہ بن گئی‘ صدر کا دفتر راولپنڈی مال روڈ پر سوہان سنگھ حویلی میں قائم کر دیا گیا‘ یہ دفتر اور یہ ایوان 1998ء تک قائم رہے‘ جمہوریت آتی تھی تو یہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس بن جاتے تھے‘ آمریت آتی تھی تو یہ دونوں عمارتیں صدر اور آرمی چیف کے پاس چلی جاتی تھیں‘ذوالفقار علی بھٹو‘صدر چوہدری فضل الٰہی‘ جنرل ضیاء الحق‘ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف بھی وقتاً فوقتاً یہ عمارتیں استعمال کرتے رہے۔

اسلام آباد کا ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس اس دوران بنتا رہا‘ غلام اسحاق خان پہلے صدر تھے جنہوں نے 1988ء میں موجودہ ایوان صدر میں رہائش اختیار کی جب کہ وزیراعظم ہاؤس1990ء کی دہائی میںمکمل ہوا‘ دونوں ایوانوں کی تکمیل کے بعد راولپنڈی کا ایوان صدر آرمی چیف ہاؤس بن گیا اور صدارتی دفتر میں فاطمہ جناح یونیورسٹی بنا دی گئی‘ہم اب اس کیوں کی طرف آتے ہیں‘ یہ دونوں عمارتیں جب موجود تھیں تو حکومت نے اسلام آباد میں اربوں روپے سے سیکڑوںایکڑ کے ایوان کیوں بنائے؟

اس کی تین وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ کارسرکار تھی‘ پارلیمنٹ ہاؤس اور وفاقی سیکریٹریٹ اسلام آباد میں تھے‘ صدر اور وزیراعظم کو راولپنڈی سے روزانہ اسلام آباد لانا مشکل تھا‘ وفاقی وزراء اور وفاقی سیکریٹریز بھی سارا دن راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان دوڑتے بھاگتے رہتے تھے‘کام کا حرج بھی ہوتا تھا‘ وقت بھی ضایع ہوتا تھا اور ناکوں کی وجہ سے عام شہریوں کو بھی تکلیف ہوتی تھی۔

دوسری وجہ غیر ملکی مہمان تھے‘ دنیا کے مختلف سربراہان پاکستان کے دورے پر آتے تھے‘ انھیں بینکویٹ دیا جاتا تھا‘ حکومت کو ان بینکویٹس کے لیے عارضی بندوبست کرنا پڑتا تھا‘ کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے تھے اور تیسری وجہ صدر اور وزیراعظم کا اسٹاف تھا‘ دونوں کا اسٹاف سو سے دو سو افراد پر مشتمل ہوتا ہے‘ آپ سیکیورٹی عملے کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ تعداد پانچ سوسے ایک ہزار تک پہنچ جاتی ہے‘ حکومت کے پاس اسٹاف کو ٹھہرانے کے لیے جگہ نہیں تھی‘ یہ لوگ دور دور سے آتے تھے۔

ان کے پٹرول اور گاڑیوں پر لمبا چوڑا خرچ ہوتا تھا چنانچہ فیصلہ ہوا وزیراعظم اور صدر کی رہائش اور دفاتر ایسی جگہ بنائے جائیں جہاں سیکریٹریٹ‘ وزراء کے دفاتر ‘منسٹر انکلیو‘ پارلیمنٹ ہاؤس‘ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن ’’واکنگ ڈسٹینس‘‘ پر ہوں‘ ایوانوں کا سائز اتنا بڑا ہو جس میں صدر اور وزیراعظم کا پورا اسٹاف بھی سما سکے‘ غیر ملکی مہمانوں کو بینکویٹ بھی دیا جا سکے‘ سرکاری ملاقاتیں بھی ہو سکیں اور صدر اور وزیراعظم کو روزانہ لانے اور واپس لے جانے کی کوفت اور خرچ سے بھی بچا جا سکے‘ ملک کا موجودہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس اس نقطہ نظر سے تعمیر کیا گیا تھا۔

عمران خان یہ دونوں عمارتیں میوزیم یا یونیورسٹی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘یہ گورنر ہاؤسز کو بھی فروخت کرنا چاہتے ہیں‘ یہ ضرور کریں لیکن فیصلے سے پہلے ان چند سوالوں کا جواب بھی تلاش کر لیں‘ کل جب غیر ملکی مہمان آئیں گے تو آپ انھیں بینکویٹ کہاں دیں گے‘ کیا یہ بندوبست فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کیا جائے گا‘ اگر ہاں تو کیا اس پر رقم خرچ نہیں ہوگی اور کیا وہ اخراجات آج کے اخراجات سے زیادہ نہیں ہوں گے اور کیا اس سے ہوٹلوں پر دباؤ نہیں بڑھ جائے گا اور ہوٹلوں میں سربراہان مملکت کی سیکیورٹی بھی کمپرومائز نہیں ہو گی؟ دوسرا وزیراعظم اور صدر کا اسٹاف کہاں بیٹھے گا‘ کیا وزیراعظم کے اسٹاف کے لیے بنی گالہ میں دفتر اور رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں گی۔

کیا وزیراعظم روزانہ تین بار بنی گالہ سے دفتر آئیں گے اور جائیں گے اورکیا ہر بار راستے کی ٹریفک بند کی جائے گی؟آپ یہ بھی سوچ لیں اس سے لوگوں کو کتنی تکلیف ہو گی؟ وفاقی سیکریٹری اور وزراء جب روزانہ فائلیں لے کر بیس کلو میٹر کا سفر طے کریں گے تو اس سے ٹریفک اور سیکیورٹی میں کتنا خلل پڑے گا؟ آپ اگر وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیتے ہیں تو کیا یہ اس ریڈزون میں ممکن ہے جس میں پارلیمنٹ‘ وفاقی سیکریٹریٹ اور سپریم کورٹ ہے؟ کیا ہم روزانہ ریڈزون میں تین چار ہزار ایسے لوگ افورڈ کر سکتے ہیں جن کی سیکیورٹی کلیئر نہیں؟آپ گورنر ہاؤس کو بھی ہوٹل یا یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں۔

آپ یہ بھی بنا دیں لیکن سوال یہ ہے غیر ملکی مہمان جب کراچی اور لاہور جائیں گے تو آپ ان کے بینکویٹ کہاں کریں گے اور کیا یہ دونوں عمارتیں یونیورسٹیوں یا ہوٹلوں کو ذہن میں رکھ کر تعمیر کی گئی تھیں؟ اور کیا آپ ہوٹل کے نئے مالکان کو ڈیڑھ ڈیڑھ سو سال پرانی عمارتوں کو ’’ری شیپ‘‘ کرنے یا گرانے کی اجازت دے دیں گے اور اگریہ بھی ممکن ہو جائے تو پھرآپ گورنرز اوران کے اسٹاف کو کہاں ٹھہرائیں گے‘ کیا ان کے لیے نئی رہائش گاہیں بنائی جائیں گی اور کیا انھیں روزانہ گھروں سے لایا اور واپس چھوڑا جائے گا‘کیا ان پر اخراجات نہیں آئیں گے اورکیا ان کی سیکیورٹی کے لیے نئے اور مشکل بندوبست نہیں کرنا پڑیں گے؟

میرا خیال ہے یہ ’’سادگی‘‘ ممکن نہیں اور اگر یہ زبردستی فرما دی گئی تو اس میں غریب قوم کے مزید اربوں روپے ضایع ہو جائیں گے چنانچہ میری عمران خان سے درخواست ہے آپ اپنے اس اعلان سے چپ چاپ یو ٹرن لے لیں۔ یہ وہ وعدہ ہے جس سے بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور پرویز مشرف نے بھی یوٹرن لے لیا تھا‘ آپ بنی گالہ میں رہیں یا پھر منسٹر انکلیو میں یہ سادگی قوم کو بہت مہنگی پڑے گی‘ بار بار ٹریفک بھی رکے گی اور اسٹاف کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو گا‘میں آپ کو کم خرچ اور بالانشینی کے دو طریقے بتاتا ہوں‘آپ ان سے سادگی بھی قائم کر لیں گے اور قومی خزانے میں بھی پانچ دس ارب ڈالر آ جائیں گے۔

آپ وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کو غیر ملکی مہمانوں کی رہائش‘ بینکویٹ اور میٹنگز کے لیے وقف کر دیں‘آپ اپنا اور گورنرز کا تمام اسٹاف بھی ان ہاؤسز کی کالونیوں میں رکھیں لیکن آپ خود وزیراعظم آفس میں شفٹ ہو جائیں‘ آپ وہاں دن کو کام کریں‘شام کو ایکسرسائز کریں اور رات کو آرام کریں‘ اس سے وفاقی سیکریٹریوں‘ وزراء‘ سفراء اور ایم این ایز کا سفر بھی کم ہو جائے گا‘ وزیراعظم کی سیکیورٹی اور پروٹوکول کا خرچ بھی بچے گا‘ عوام بھی ناکوں اورروٹس کی کوفت سے بچ جائیں گے اورمنسٹر کالونی میں وزیراعظم کی نئی رہائش گاہ کے اخراجات بھی نہیں ہوں گے ورنہ دوسری صورت میں روزانہ ٹریفک بھی بند ہو گی۔

اخراجات بھی بڑھیں گے اور لوگ بھی جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیں گے‘دوسری تجویز‘ آپ خزانہ بھرنے کے لیے پاکستان کے غیر ملکی اثاثوں پر توجہ دیں‘ امریکا‘ لندن‘ پیرس‘ سعودی عرب‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں پاکستان کی اربوں ڈالر کی پراپرٹیز دہائیوں سے خالی پڑی ہیں‘ آپ نجکاری بورڈ سے فہرستیں منگوائیں اور یہ تمام پراپرٹیز نیلام کرا دیں‘ آپ کو دو سے تین بلین ڈالرز فوراً مل جائیں گے‘ آپ اس کے بعد مہنگی جگہوں پر قائم تمام سفارت خانوں کی فہرستیں بنوائیں‘ یہ سفارت خانے نسبتاً سستی جگہوں پر شفٹ کرائیں اور یہ عمارتیں بھی بیچ دیں‘ آپ کو ان سے بھی اڑھائی تین ارب ڈالر مل جائیں گے یوں آپ کو پانچ دس ارب ڈالر حاصل ہو جائیں گے۔

کیا نئی حکومت ان تجاویز پر عمل کرے گی؟ میرا خیال ہے‘ نہیں‘کیوں؟ کیونکہ ملک میں پچھلے چار برسوں میں حقائق‘ منطق اور دلیل تینوں فوت ہو چکے ہیں‘ قوم اب جذبات اور پرسیپشن پر چل رہی ہے‘یہ دونوں علتیں قوموں کے لیے ہمیشہ زہرقاتل ثابت ہوتی ہیں‘ آپ ملک میں دلیل کی ذلت ملاحظہ کیجیے‘ وہ علی موسیٰ گیلانی جس نے 9 ہزار کلو گرام ایفی ڈرین بیچ دی تھی‘ جس سے یہ پورا سکینڈل شروع ہوا تھا وہ آج بھی آزاد پھر رہا ہے اور وہ حنیف عباسی جو سات سال عدالت کو بتاتا رہا میری کمپنی نے کوٹہ لیا تھا‘ ہم نے دوائی بنائی تھی اور اس کا یہ ریکارڈ ہے وہ الیکشن سے چاردن پہلے جیل پہنچ گیا‘چلیے ہم مان لیتے ہیں یہ فیصلہ قانون کے عین مطابق ہوا لیکن حکومت نے پورے خاندان کے اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں۔

یہ کہاں کا انصاف ہے؟ چلیے ہو سکتا ہے یہ بھی قانون کے عین مطابق ہو لیکن آپ زیادتی ملاحظہ کیجیے ملک کا کوئی بینک حنیف عباسی کی بیگم اور بچوں کے نئے اکاؤنٹس کھولنے کے لیے تیار نہیں ہو رہا‘ یہ کہاں لکھا ہے؟ قانون اس کی کہاں اجازت دیتا ہے چنانچہ مجرم حنیف عباسی کی اہلیہ اور بچے اپنے اس حق کے لیے کہاں ٹکر ماریں‘ یہ کہاں جائیں لیکن میں پہلے عرض کر چکا ہوں ملک میں حقائق‘ منطق اور دلیل تینوں فوت ہو چکے ہیں۔

سچ اب وہ ہے جو سوشل میڈیا پر ہے یا پھر وہ جو رات کے اندھیرے میں جنم لیتا اور رات کے اندھیرے ہی میں پروان چڑھتا ہے‘ مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے وہ وقت اب دور نہیں جب لوگ دوسروں کے کلمے پر بھی یقین نہیں کریں گے ‘ ہمیں سچ کا لفظ بھی صرف ڈکشنریوں میں ملے گااور ہم میں سے ہر وہ شخص جو حق‘سچ اور انصاف کی بات کرے گا وہ سیدھا جیل جائے گا یا پھر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے گا‘ وہ پاکستان اب زیادہ دور نہیں رہا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے