بلوچستان کی تاریخ اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر _ سال 1993 کی اہمیت

قیام پاکستان کے وقت پاکستان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج انرجی کا بحران اور پانی کے ذخائر کا حل تھا۔ یہ جہاں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب ہوا وہاں المیہ یہ ہے کہ اس گناہ کے مرتکب افراد کی نشاندھی ہوئی اور نہ اس کے مجرم پکڑے گئے۔ پس پردہ حقائق غور سے پڑھکر سوچئے۔

بے شک بلوچستان باقی علاقوں کی نسبت پسماندہ علاقہ تھا۔جسکے کئ ممکنہ اسباب میں ایک اسکا قدرتی محل وقوع بھی ہے۔

تاہم قائداعظمؒ نے سب سے زیادہ دلچسپی جس مسئلے کو اہم ترین سمجھتے ہوئے لی اور اسکے حل کی طرف توجہ دی وہ بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت تھی یہ اسباب جاننا بہت اہم ہے۔ اسلئے کہ قائداعظمؒ بہت دوراندیش راہنماء تھے وہ ہرقسم کے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کیلیے مستعد رہتے اور اپنی ترجیحات طے کرکے چلتے۔ وہ بیک وقت اس نوزائیدہ ملک پاکستان کو آئین دینے کیساتھ خارجہ و داخلہ پالیسی اور آئندہ کی لیڈرشپ کیلئے کئی ایک محاذوں پر لڑرہے تھے۔

اس وقت بلوچستان میں قلات، لسبیلہ ، خاران اور مکران چار چار مکمل آزاد ریاستیں تھیں جن کا کراچی میں سفارتخانہ بھی قائم کیا گیا اور وہاں 227 دن تک آزاد بلوچستان کا جھنڈا لہراتا رہا ۔ لیکن خان آف قلات کت پاس باقی دو ریاستوں کی سفارتکاری کا اختیار نہ تھا اس لئے قائداعظم محمد علی جناحؒ اس عمل سے ہرگز خوش نہ تھے ۔
قیام پاکستان کے اعلان سے بھی قبل قائداعظمؒ میر سر احمدیارخان احمدزئی المعروف خان آف قلات کے قانونی مشیر اور قریب ترین دوست تھے اسلئے خان آف قلات انکی بہت عزت کرتے ۔ اس حیثیت سے قائداعظمؒ نے خان آف قلات کو کراچی میں اپنے گھر مدعو کیا اور ان سے بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر کئ میٹنگز کیں اور بادل ناخواستہ انہیں قائل کر لیا کہ وہ فیڈریشن آف پاکستان کو تسلیم کرکے بلوچستان کی اسمیں شمولیت کا اعلان کریں اتو انہیں گورنر بنادیا جائے گا۔

اس سلسلے میں جولائی اور اکتوبر 1947 فروری 1948 میں دونوں کے درمیان ون آن ون مذاکرات کے کئ ادوار ہوئے تاوقتیکہ 26 مارچ کو حکومت نے پاکستان آرمی کو حکم دیا گیا کہ وہ بلوچستان میں پسنی، جیوانی اور تربت کا محاصرہ کریں ۔

ان حالات میں قائداعظمؒ سے ذاتی مراسم چ سالوں پر محیط تعلق ، مخلصانہ ایڈوائس کا حیاء اور حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خان آف قلات نے بلوچستان کے فیڈریشن آف پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا ۔ جسے بہت سراہا گیا۔ تاہم خان آف قلات #میرسراحمدیارخان_احمدزئی کے بھائیوں میرعبدالکریم بلوچ اور میر عبدالرحیم نے مسلح بغاوت کا اعلان کردیا اور اپنی ملیشیاء کو مقابلہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اسوقت تک ریاست بلوچستان کے رسمی کنگ جست خان آف قلات کہا جاتا ہے وہ پاکستان کے ساتھ تھے اور انہوں نے اپنے بھائیوں کے مطالبے کا ساتھ دینے سے انکار کرکے الحاق پاکستان کا ساتھ دیا اور اس پر کھڑے رہے۔ وہ مسلسل اپنے بڑے بھائی کو اکساتے رہے کہ انہیں ڈر ہے جو وعدے آج ہمارے شاہی خاندان سے کئے گئے ہیں وہ پورے نہیں کئے جائیں گے۔ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر
آج بلوچستان میں آزادی کا نعرہ لگانیوالوں کو حقائق کاادراک نہ رکھنے اور تاریخی حقائق سے ناواقف لوگ فوراً غدار تو کہہ دیتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچا جاتا کہ پاکستان کا وجود ریاست بلوچستان کے428 سال بعد وجود میں آیا ۔ اور پندرویں صدی میں اس ریاست کے مالکان کو پتہ تھا انکے علاقے میں سونے کے ذخائر ہیں۔ جسے 1920 میں روس نے ایک سروے میں کنفرم کیا اور 1978 میں جیولوجیکل سروے میں ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے مکمل تفصیلات کے ساتھ قوم کو ان 5.9 بلین ٹن کے ذخائر کی خوشخبری دی۔

موجودہ بلوچستان پندرہویں صدی سے لیکر قلات خان کے جاگیر تھی اور وہ ملکہ برطانیہ کی طرح اس صوبے کے کنگ تسلیم کئے جاتے تھے انکی باقاعدہ اسی طرح تاج پوشی ہوتی جیسے سعودی عرب میں شاہ فیصل کہ ہوئی یا برطانیہ میں ملکہ الزبتھ کی ہوئی۔

ریاست بلوچستان کے بادشاہ اس خان آف قلات سے فیڈریشن آف پاکستان نے کچھ وعدے بھی کئے تھے ۔ عام طورپر خیال کیاجاتا ہے کہ وقت گزرنے کیساتھ ان وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے میر سراحمدیارخان احمدزئی نے 1958 میں ریاست پاکستان سے ان معاہدوں کی پاسداری کا مطالبہ کیا، جواب میں سردمہری دکھائی جاتی رہی جس کیوجہ سے انہوں نے دوبارہ اپنے خاندانی ٹائٹل خان آف قلات یعنی کنگ آف قلات کی بحالی کا اعلان کردیا۔ جس پر فوری ردعمل دیتے ہوئے صدر اسکندرمرزا نے انکی گرفتاری کا آرڈر جاری کردیا اسکے بعد بلوچستان میدان جنگ بن گیا ۔ انکی اسیری کے دوران زہری قبیلے کے سربراہ نواب نوروزخان نے عوام کو بغاوت پر اکسایا اور لوگ سڑکوں پر بلوچستان میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوگئی ۔ لیفٹیننٹ کرنل ٹکا خان جو بعد میں پاکستان کے آرمی چیف اور گورنرپنجاب بنے بلوچستان میں مسلح بغاوت کیخلاف آرمی ایکشن پلان کی قیادت کررہے تھے انہوں نے باغیوں کو محاصرے میں لے لیا مذاکرات ہوئے اور ڈیڑہ سو محافظوں کیساتھ نوروز خان نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں سمیت گرفتاری دے دی ۔ لیکن معاہدے کے برعکس نورخان کے بیٹوں اور بھتیجوں کو بغاوت کے جرم میں حیدرآباد جیل میں پھانسی دے دی گئ جبکہ نوروزخان کو انکی پیراسالی کیوجہ سے چھوڑ دیا گیا۔

آپریشن لے باوجود اس بغاوت کے جراثیم ہرجگہ دیکھے جاسکتے تھے لہزا دوسال کی اسیری کے بعد خان آف قلات کو رہا کردیا گیا اور انہیں انکے خاندانی ٹائیٹل کنگ آف قلات کے استعمال کی اجازت دے دی گئ۔

1979 میں 77 سال کی عمر میں خان آف قلات کی وفات کے بعد انکے بڑے بیٹے پرنس میر سلیمان داؤد جان خان یعنی پرنس آف قلات بنے اور انکی اولار آجکل برطانیہ کے شہر ویلز میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہے۔

اس بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرنے کیلئے اتنی تگ و دو اور اتنی قربانیاں اسی لئے دی گئیں کہ بانی پاکستان قائداعظم اس خطے کی جغرافیائی اہمیت اور وہاں سونےو تانبے کے ذخائر سے مکمل آگاہ تھے
لیکن کہاوت ہے کہ وہ دولت جو وقت پر کام نہ آئے اسے رکھنے کا کیا فائدہ؟

دوسری حقیقت جسے کبھی کھول کر بیان نہیں کیا گیا وہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں کالاباغ ڈیم کے منصوبے کا ری وزٹ تھا مگر اسکے بارے میں جو فیصلہ ہوا اسکی رپورٹ آجتک پبلک نہیں کی گئ اس لئے عوام اس منصوبے کے شروع نہ کئے جانے سے لاعلم ہے۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا کام 1953 میں شروع اور 1993 میں مکمل ہونا تھا ۔

وہ طاقتیں جنکی ملی بھگت کی وجہ سے کالاباغ ڈیم کو شروع ہی نہ ہونے دیا انہوں نے الیکشن 1993 میں منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر آوٹ آف بلون معین قریشی کو پاکستان بلاکر عبوری وزیراعظم بنایا اور پھر اس معین قریشی سے سونے کی کان کا ٹھیکہ دلوایا گیا۔ پھر20 سال بعد 2013 میں اسوقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے ریکوڈک معاہدے کو کینسل کرکے غیرملکی کمپنیوں کو پاکستان سے سونا اور تانبا ملک سے باہر لے جانے سے روک دیا گیا۔ افتخار چودھری کے اس دلیرانہ فیصلے کی پاکستان کی نسلیں ملکر بھی قرض نہیں چکا سکتیں۔ افتخار چودھری کےبعد سپریم کورٹ کی زمہ داری تھی کہ وہ اس خفیہ اور غیر شفاف معاہدے کے زمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچاتی اور پاکستان کو اندھیروں میں ڈبونے والوں کو عبرتناک سزا دیتی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اگر حقیقی ہیرو بننا چاہتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ بھینس اور بکری چوری کے مقدمات کے فیصلے کسی اور کرنے دیں اور ایسے کم ازکم ایک بڑے کیس کو نبٹا کر ریٹائر ہوں ورنہ تاریخ انکی جانبداری پر سوالات اٹھاتی رے گی۔
اس قوم کو ملکر پاک فوج سمیت تمام اداروں کے تحفظ اور انکے وقار کو بلند کرنے کیلئے کام کرنا ہے تاہم کسی ادارے کے وقار کے مجروح ہونے کی آڑ میں وہ لوگ جنہوں نے اس ملک کو کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا وہ جس ادارے میں بھی ہوں وہ ہرگز قابلِ معافی نہیں انکے نام سامنے آنے چاہیں ۔ ہرکوئی آئین کے ماتحت ہے ۔ برطانیہ ، ایران ، جاپان ، روس اور پاکستان میں افواج ہمیشہ زلزلے، قدرتی آفات اور داخلی سیکورٹی کے معاملات میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر اپنی زمہ داری پوری کرتی ہیں ۔ اس لیے ہمیں اپنی فوج کو مضبوط سے مضبوط اور پروفیشنل ایڈوانسمنٹ کیلئے دیگر زمہ داریوں سے آزاد کرنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے