پاکستانی اورسیز کے مسائل

سب سے پہلے تو میں ٹیم IBC URDU کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اورسیز پاکستانیز کے مسائل کو اجاگر کرنے میں میری مدد اور رہنمائی فرمائی اور ارباب اختیار تک اورسیز پاکستانیز کی آواز کو پہنچایا۔

میری کوشش ہے کہ اورسیز پاکستانیز کے بےشمار مسائل کو جامع انداز میں ارباب اختیار تک پہنچایا جائے اور ان مسائلِ کی نشاندھی کے ساتھ ان کے حل کےلئے مفید تجاویز بھی دی جائیں۔

اورسیز پاکستانی کا استحصال اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب وہ پاکستان سے باہر ممالک میں نوکری کی تلاش میں ریکروٹمنٹ ایجنسیز اور ایجنٹوں کے ہاتھ چڑھتا ہے۔
اسے عرب اور یورپی ممالک کی بہترین کمپنیوں میں اعلیٰ معیار کی جاب پوزیشن جس کی تنخواہ یورو، ریال و درہم کی ضرب کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں ہزاروں اور لاکھوں بتائی جاتی ہے ۔اسے اس طرح سے ہپناٹایز کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تمام جمع پونجی،گھر کی عورتوں کے زیورات،مال مویشی،دوستوں اور رشتے داروں سے قرض اور بعض اوقات زمین اور مکان تک بیچ کر اس نوکری کے ویزہ کے لیے ایجنٹ یا ریکروٹمنٹ ایجنسی کی منہ مانگی قیمت ادا کرتا ہے۔

درج بالا سطور میں اورسیز پاکستانیز کے سب سے بنیادی مسئلے کیطرف نشاندھی کی ہے اور اب اس مسئلے کیوجہ سے ہونے والے مضمرات ملاحظہ فرمائیں۔

یاد رکھیےیہ تمام باتیں بیرون ممالک پہنچ جانے کی صورت میں وقوع پذیر ہونے والے مشاہدات اور تجربات ہیں حالانکہ ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو اپنا سب کچھ لٹا کر بھی بیرون ملک کا ویزہ حاصل نہیں کر پاتے اور کئی سالوں تک ایجنٹوں کو ڈھونڈتے رہے جاتے ہیں۔

دل تھام کر پڑھیے کے کتنا مشکل ہوتا ہے آنکھوں میں سپنے سجائے ہوئے اپنا اور اپنے والدین کا نام اونچا کرنے کے لئے اور انہیں آرام دہ زندگی دینے کے لئے جب ان کی جدائی کے وہ لمحات آتے ہیں تو بڑے بڑے دل اور جگرِ والوں کی سسکیاں بند جاتی ہیں۔وہ ایرپورٹ انتظامیہ کی کڑی چیکنگ سے گزرتے ہوئے جب جہاز کی سیٹ تک پہنچتا ہے تو سوچ رہا ہوتا ہے بس کچھ ہی دن کے بعد وہ ہزاروں اور لاکھوں کمانے والا بن جائے گا اور اس کے سارے مصائب ختم ہو جائیں گے۔

لیکن حقیقت اس وقت آشکار ہوتی ہے جب وہ اپنی مقررہ کمپنی یا جاب پر پہنچتا ہے۔ایسا تقریباً 100میں سے 75 فیصد سے زائد اورسیز پاکستانیز کے ساتھ ہوتا ہےکہ جب انہیں پتا چلتا ہے کے جو جاب ایگریمنٹ، سیلیری پیکیج  اور اس کا ورکنگ ٹریڈ اس کے ایجنٹ یا ریکروٹمنٹ ایجنسی نے بتایا تھا اس سے سب کچھ مختلف ہے۔

اسے اس کی کمپنی بتاتی ہے کہ یہ ویزہ پیپرز اور جاب ایگرمنٹ لیٹر ہے اور ان پر فوراً دستخط کئے جائیں تاکہ اس کے پرمننٹ ورکنگ ویزے کا پروسس شروع کیا جا سکے۔

وہ سب کچھ پڑھ کر اگر تو پڑھنا لکھنا جانتا ہے وگرنہ کوئی اور پڑھ کر اسے بتا کر اس کی جان نکال رہا ہوتا ہے کہ جتنی تنخواہ ایجنٹ یا ریکروٹمنٹ ایجنسی نے بتائی تھی اس کے آدھی بھی نہیں ہے اور کام بھی وہ نہیں جس کے خواب دیکھا کر لاکھوں روپے ایجنٹ نے بٹورے تھے اور وہ سہولتیں جن کا سن کر اس کے ماں باپ نے تسلی کی تھی کہ چلو لاکھوں کا ویزہ ہے لیکن بیٹے کو سہولتیں تو حاصل ہوں گی۔

اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ چاروناچار فوراً دستخط کر کے اپنی زندگی کا سب سے بڑا مشکل فیصلہ کرتا ہے کہ اب آ تو گیا ہے اور واپس جانے کا کوئی امکان اسے دور دور تک نظر نہیں آتا کیونکہ اسے اپنے والدین،بیوی بچوں اور سب کے سامنے یہ نہیں سننا کہ باہر بھیجا تھا اور وہاں سے بھی ناکام لوٹ آیا۔اسے وہ قرض بھی اتارنے کی فکر ہوتی ہے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار صرف باہر کے ویزہ کا سن کر اس کی مدد کی تھی وگرنہ ساری زندگی ایک چائے کا کپ تک نہ پلایا تھا۔
اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے وہ دوسری قسط میں ملاحظہ فرمائیں لیکن اس پوری تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان سے باہر جانے کے لیے اورسیز پاکستانیز کی پوری وزارت موجود ہے لیکن وہ انتہائی غیر فعال ہے۔
اگر اس وزارت کو صحیح طور پر چلایا جائے تو اورسیز پاکستانیز کے آدھے سے زائد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
اسوقت پاکستان میں جو ورکنگ ویزے بیرون ممالک سے آ رہے ہیں ان پر وزارت کی طرف سے کوئی چیک اینڈ بیلنس پالیسی نہیں ہے اسی وجہ سے ایجنٹ اور ریکروٹمنٹ ایجنسیز منہ مانگے پیسے وصول کر رہی ہیں اور وہ جاب ٹائٹل میں بھی دھوکہ دہی کی مرتکب ہوتی ہیں۔
متوقع وزیراعظم عمران خان سے اپیل ہے کہ اس جانب بھرپور توجہ دی جائے تاکہ وزارت حقیقی طور پر اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے اور اورسیز پاکستانیز کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے