جنرل یحییٰ خان کو اللہ تعالیٰ نے حیران کن صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا‘ وہ اپنی قوت فیصلہ سے دشمنوں کے چھکے چھڑا دیا کرتے تھے‘ مجھے بے شمار پرانے جرنیلوں نے بتایا وہ بھارت اور پاکستان کے چپے چپے سے واقف تھے‘ وہ میٹنگز میں چند لمحوں میں فیصلہ کر لیتے تھے اور وہ فیصلہ بعد ازاں ٹھیک ثابت ہوتا تھا‘ جنرل اعجاز عظیم اور جنرل گلستان جنجوعہ یہ دونوں جنرل یحییٰ کے سٹاف آفیسر رہے۔
مجھے ان دونوں نے بتایا تھا ’’جنرل یحییٰ خان ملک کا واحد کمانڈر انچیف اور صدر تھا جو تمام فائلیں پوری پڑھتا تھا‘ وہ سپیلنگ اور محاورے کی غلطیاں بھی درست کرتا تھا اور آخر میں صرف یس یا نو لکھ کر فیصلہ دے دیتا تھا اور وہ فائل اس کے بعد پوری زندگی اسے یاد رہتی تھی‘ ہم اگر کبھی کوئی فائل دوبارہ بھجوا دیتے تھے تو وہ نشے کی حالت میں بھی فائل دیکھتے ہی کہہ دیتے تھے میں نے فلاں مہینے اس پر فیصلہ دیا تھا‘ آپ نے یہ مجھے دوبارہ کیوں بھجوا دی‘‘ وہ ذاتی زندگی میں بھی انتہائی ایماندار تھے‘ پوری زندگی ان پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔
وہ سرکاری بار پر ذاتی پے منٹ کر کے مشروبات لیتے تھے (اس زمانے میں شراب پر پابندی نہیں تھی) خاندان کے لوگ ایوان صدر نہیں آ سکتے تھے‘ فیملی کے تمام اخراجات ان کے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کیے جاتے تھے‘ اسلام آباد کا انتخاب بھی یحییٰ خان نے کیا تھا اور وہ سی ڈی اے کے پہلے چیئرمین بھی تھے لیکن اس پورے شہر میں ان اور ان کے خاندان کے نام ایک انچ زمین نہیں تھی‘ راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ میں ان کا صرف ایک گھر تھا‘وہ ریٹائرمنٹ کے بعد انتقال تک اسی گھر میں مقیم رہے اور پنشن کی رقم سے اپنی ضروریات پوری کرتے رہے اور ان کا صاحبزادہ علی یحییٰ آج بھی مڈل کلاس زندگی گزار رہا ہے لیکن یہ یحییٰ خان اپنی ان تمام خوبیوں کے باوجود ملک میں گالی بن گیا۔
انھیں فوج نے اون کیا اور نہ ہی عوام نے‘ یحییٰ نبی کا نام تھا (حضرت یحییٰ ؑ ‘عیسائی انھیں جان دی بیپٹیسٹ کہتے ہیں) مگر آپ عبرت ملاحظہ کیجیے لوگ 1985ء تک اپنے بچوں کا نام یحییٰ نہیں رکھتے تھے چنانچہ آپ کو 1971ء سے 1985ء تک ملک میں یحییٰ نام کے بچے نہیں ملیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں یحییٰ خان نے ملک توڑ دیا تھا‘ وہ کمپی ٹینٹ تھے‘ وہ حیران کن یادداشت کے مالک تھے‘ وہ بے پناہ قوت فیصلہ رکھتے تھے‘ وہ انتہائی ایماندار تھے‘ وہ بہت خوبصورت تھے‘ وہ اپنی انگریزی دانی سے انگریزوں کو حیران کر دیتے تھے۔
وہ امریکا اورچین کو ایک میز پر بٹھانے والے دنیا کے پہلے لیڈر تھے اور وہ ناقابل یقین حد تک سادگی پسند تھے مگر ان کی یہ تمام خوبیاں ان کی ایک خامی نگل گئی اور وہ خامی سانحہ مشرقی پاکستان تھا‘ عوام نے یحییٰ خان کے مارشل لاء کو پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے قبول کیا تھا لیکن وہ پاکستان کونہ بچا سکے اور ملک بھی ٹوٹ گیا اور ہمارے گلے میں 1971ء کی ہار کا طوق بھی پڑ گیا‘ ہمارا کوئی فوجی جوان آج 47 سال بعد بھی خود کو یحییٰ خان کے ساتھ کھڑا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا‘ فوجی جوان جنرل نیازی اور جنرل یحییٰ خان کی یونٹ کا ذکر تک نہیں کرتے۔
ہم زندگی میں کتنے ایماندار‘ سادہ‘ عقل مند‘ ماہر اور خوبصورت ہیں یہ اہم نہیں ہوتا‘ ہم کیا کر رہے ہیں‘ ہم کیا کرتے رہے اور ہم نے کیا کیا یہ اہم ہوتا ہے‘ ہندوستان میں قائداعظم سے زیادہ ذہین‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ خوبصورت‘ ایماندار اور قانون پسند لوگ موجود تھے لیکن آج ان کا نام تک کوئی نہیں جانتا جبکہ قائداعظم دنیا کے عظیم ترین لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں‘کیوں؟ کیونکہ وہ لوگ صرف قانون پسند‘ ایماندار‘ تعلیم یافتہ اور ذہین تھے جبکہ قائداعظم نے ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی بنایا تھا چنانچہ پاکستان قائداعظم کا اصل کمال تھا‘ ہم اگر ان کی زندگی سے یہ خارج کر دیں تو پھر پیچھے کچھ نہیں بچتا‘ پھرشخصیت اور ذات میں علامہ عنایت اللہ مشرقی بھی ان سے آگے نکل جاتے ہیں۔
ایمانداری‘ سادگی اور ذہانت ہماری اضافی خوبیاں تو ہو سکتی ہیں لیکن یہ ہماری جاب‘ ذمے داری یا کنٹری بیوشن نہیں ہوتیں‘ فرعون میں بھی دس ہزار خوبیاں تھیں‘ دنیا آج تک اس کے انجینئرنگ کے کمالات اور انصاف کا مقابلہ نہیں کر سکی‘آپ فرعون کے انصاف کا لیول دیکھئے حضرت موسیٰ ؑ اس کے گھر میں پلے بڑھے تھے‘ وہ اس کی اولاد سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے لیکن جب حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھوں ایک قبطی کی جان چلی گئی تو حضرت موسیٰ ؑفرعون کا محل چھوڑ کر صحرائے سینا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے‘ کیوں؟
کیونکہ یہ جانتے تھے فرعون اس قدر انصاف پسند ہے یہ ان کے ساتھ بھی رعایت نہیں کرے گا‘ فرعون کی یہ ذہانت اور یہ ایمانداری اپنی جگہ لیکن کیا ہم ساڑھے تین ہزار سال بعد بھی اپنے بچوں کا نام فرعون رکھیں گے؟ جی نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ وہ دنیا کا عظیم انجینئر‘ عظیم منصف اور عظیم حکمران ہونے کے باوجود مشرک اور اللہ تعالیٰ کا دشمن تھا چنانچہ یحییٰ خان کی طرح اس کی ایک خامی‘ ایک غلطی اس کی ساری خوبیوں کو نگل گئی لہٰذا میراعرض کرنے کا مطلب یہ ہے ہمارا اصل کمال ہمارے کارنامے۔
ہمارا کنٹری بیوشن ہوتا ہے‘ ہماری خوبیاں ہمارے کنٹری بیوشن‘ ہمارے کارناموں کی نیک نامی میں اضافہ تو کر سکتی ہیں لیکن یہ ان کی جگہ نہیں لے سکتیں‘ لی کوآن اور مہاتیر محمد کی سادگی اور ایمانداری اضافی خوبیاں ہیں لیکن ان کا اصل کمال ملائیشیا اور سنگا پور کو تیسری دنیا سے نکال کر پہلی دنیا کی صف میں لانا ہے۔
میری عمران خان سے درخواست ہے آپ پروٹوکول لیں یا نہ لیں‘ آپ وزیراعظم ہاؤس میں رہیں یا پھر سپیکر ہاؤس یا پھر بنی گالہ کے ذاتی گھر میں رہائش اختیار کریں قوم کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ آپ بے شک ملک کے تمام ایوانوں کو تالے لگوا دیں اور آپ خواہ ملک کے تمام سیاستدانوں کو پکڑ کر جیل میں پھینک دیں‘ آپ خواہ سادگی کی بین الاقوامی مثال قائم کرتے ہوئے روزانہ سائیکل پر دفتر آنا شروع کر دیں لیکن عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
آپ کی سادگی‘ آپ کا انصاف اور آپ کا سیاسی انتقام ایک بار تالی ضرور بجوا دے گا‘ عوام اسے تھیٹر کی طرح دیکھ کر چند لمحوں کے لیے خوش ضرور ہو جائیں گے‘ یہ سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بھی بن جائے گا لیکن یہ عوام کا پیٹ نہیں بھر سکے گا‘ یہ پرانے پاکستان کو نیا پاکستان نہیں بنا سکے گا‘ یہ تبدیلی ثابت نہیں ہو سکے گا چنانچہ میری درخواست ہے آپ سادگی کے تماشوں کے بجائے اصل کام شروع کریں‘ آپ لی کوآن یو اور مہاتیر محمد کی طرح کام پر توجہ دیں لوگ بھول جائیں گے آپ کتنا پروٹوکول لیتے تھے اور آپ کس گھر میں رہتے تھے اور آپ کون سا پرفیوم استعمال کرتے تھے۔
عوام عمران خان سے کیا چاہتے ہیں؟ عوام ستر سال کے اس گلے سڑے نظام سے جان چھڑانا چاہتے ہیں‘ آپ اپنے وعدے کے مطابق اس نظام کو اٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینک دیں‘ ملک میں پانچ کروڑ نوجوان بیروزگار ہیں‘ آپ ایک کروڑ نوکریوں کا بندوبست کر دیں‘ ملک میں ہر سال 10 لاکھ نئے گھروں کی ضرورت پڑتی ہے‘ آپ پانچ سال میں پچاس لاکھ سستے مکان بنا کر دیں‘ لوگ پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے ہیں‘ لوگ اگر ایک بار تھانے چلے جائیں تو ان کی دس دس سال جان نہیں چھوٹتی‘ دادا کا مقدمہ پوتا بھگتتا ہے۔
آپ پولیس کا یہ نظام تبدیل کریں‘ بے گناہ لوگ سپریم کورٹ میں بے گناہ ثابت ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے ملزم جیل میں انتقال کر گیا تھا‘ پورے ملک کے کسی شہر میں صاف پانی دستیاب نہیں‘ وفاقی دارالحکومت کا پانی تک پینے کے قابل نہیں ہوتا‘ چپڑاسی سے لے کر وزیراعظم تک منرل واٹر پیتے ہیں‘ ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے محروم ہیں‘ پٹرول‘ بجلی اور گیس کے نرخ عام آدمی کی انکم سے تین گنا زیادہ ہیں‘ عوام مہنگائی میں پس پس کر بے بس ہو چکے ہیں۔
حکومت کو کام چلانے کے لیے وفاقی سیکریٹری تک نہیں ملتے‘ 2017ء میں سی ایس ایس کے امتحان کے لیے 9391 نوجوان پیش ہوئے اور ان میں سے صرف 310 کامیاب ہوئے‘ یہ شرح 3.3 فیصد بنتی ہے‘ ملک میں چار قسم کے نظام تعلیم ہیں‘ ملک کے اندر پانچ ملک بھی ہیں‘ فوج کا ملک الگ ہے‘ سیاستدانوں کا پاکستان اور ہے‘ صنعتکاروں‘ تاجروں اور امراء کا ملک اور ہے‘ بیوروکریسی‘ عدلیہ اور پولیس کا ملک اور ہے اور عوام کا پاکستان اور ہے‘ آگ لگ جائے تو ہم آگ نہیں بجھا پاتے‘ سیلاب آ جائے تو ہم سیلاب کا پانی نہیں نکال پاتے اور اگر خدانخواستہ زلزلہ آ جائے تو ہم لاشیں اکٹھی نہیں کر پاتے۔
ہم 13 برسوں میں آج تک 2005ء کے زلزلہ زدگان کو آباد نہیں کر سکے‘ ملک میں 90 لاکھ نشئی پھر رہے ہیں‘ ہم منشیات‘ گردہ فروشی اور بچے چوری کرنے میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں‘ ہم من حیث القوم ترقی کے خلاف ہیں‘ آپ آج سڑک بنانا شروع کر دیں پورا ملک ڈنڈے لے کر باہر آ جائے گا‘ ہمارے بدترین جوڈیشل سسٹم کی وجہ سے سرمایہ کار ملک میں قدم نہیں رکھ رہے‘ پوری دنیا ہمیں دہشتگردی کا ایکسپورٹر سمجھتی ہے‘ ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں دنیا کے پست ترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں اور ہمارے ہمسائے ہمیں ہر وقت پریشانی کی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں چنانچہ میرا خیال ہے عمران خان کو سادگی کی سائیکل چلانے کے بجائے ان ایشوز پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ کہا کرتے تھے میرے پاکستانیوں تمہیں اللہ نے اپنامقدر بدلنے کا موقع دیا ہے‘ عمران خان اب سادگی پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عوام کا مقدر بدل کر دکھائیں‘ یہ اصل کام پر آئیں‘ یہ اب وہ وعدے پورے کریں جو یہ 20 سال سے قوم کے ساتھ کر رہے ہیں‘ قوم ان کی تصویر قائداعظم کے ساتھ بھی لگائے گی اور پھر اسے دیوار سے اترنے نہیں دے گی ورنہ دوسری صورت میں قوم کہے گی عمران خان نے سادگی بہت قائم کی لیکن ملک تباہ کر دیا۔