ملیحہ لودھی کی پاکستان کے متوقع وزیراعظم سے ملاقات

پیر کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ ڈالنے کے بعد اپنے بستر پر رکھے اخباروں کا بنڈل کھولا تو ایک اُردو روزنامے کے صفحہ اوّل پر نمایاں طور پر چھپی ایک تصویر پر نظر پڑگئی۔ چند روز بعد وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والے عمران خان صاحب اس تصویر میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کے ساتھ اپنے بنی گالہ والے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ لگائی چار کالمی خبر میں اطلاع یہ دی گئی تھی کہ ہمارے متوقع وزیر اعظم اس امر پر بہت خفا ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے حکومتِ پاکستان کی جانب سے مناسب اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اس روئیے کو بدلنا ہوگا تاکہ مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کو یقینی بنایا جا سکے۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کو نواز حکومت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب تعینات کیا تھا۔ پیر کی صبح چھپی خبر کو پہلی بار پڑھ کر مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ خان صاحب ڈاکٹر صاحبہ کی اقوام متحدہ میں کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ چونکہ وہ فارن آفس کی باقاعدہ ملازم نہیں۔ ان کی تعیناتی سیاسی حکومت نے کی تھی لہذا اس حکومت کے جانے کے بعد معمول کے مطابق ڈاکٹر صاحبہ کو اس منصب سے فارغ کیا جارہا ہے بعد ازاں لیکن یہ خیال آیا کہ کسی بھی نئی حکومت کے آنے کے فوری بعد گزشتہ حکومت کے لگائے نان کیرئیر سفارت کار خودبخود اپنے منصب سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ خاں صاحب کو خاص طورپر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو اپنے گھر بلاکر انہیں پاکستان کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کے منصب سے فراغت کی اطلاع دینا ضروری نہیں تھا۔ میری خوش بختی کہ ایک انگریزی اخبار میں بھی اس ملاقات کے بارے میں خبر چھپی تھی۔

اس خبر کا ذریعہ نہیں بتایا گیا۔ اُردو اور انگریزی اخبارات میں چھپی خبروں کا متن مگر ایک جیسا تھا۔ اس حقیقت نے مجھے یہ طے کرنے پر مجبور کیا کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کی عمران خان صاحب سے ملاقات والی خبر اور تصویر بنی گالہ میں موجود تحریک انصاف کے میڈیا آفس نے جاری کی ہے۔مذکورہ خبر لکھنے والا شخص مگر صحافتی زبان سے قطعاًََ واقف نہیں تھا۔ غالباًََ اسے یہ بتایا گیا ہوگا کہ خاں صاحب نے ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ملاقات میں نواز حکومت کے مسئلہ کشمیر کے بارے میں سرد روئیے پر خفگی کا اظہار کیا ہے یہ خبر لکھتے ہوئے بنی گالہ میں بیٹھے کسی منشی نے لیکن یہ بھی بتادیا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہ رکھنے کے لئے مو¿ثر اقدامات اٹھائیں۔انگریزی اور اُردو اخبارات میں چھپی ان خبروں کو غور سے پڑھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہمارے متوقع وزیر اعظم نے ڈاکٹر صاحبہ کو خاص طورپر بنی گالہ طلب کیا تھا۔

شاید یہ حکم دینے کہ وہ بدستور نیویارک میں پاکستان کی اقوام متحدہ کے لئے مستقل مندوب کی حیثیت میں کام جاری رکھیں۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی شروع ہونا ہے۔ نئی دلی میں افواہیں گردش میں ہیں کہ شاید بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اس اجلاس میں شریک ہونا چاہ رہا ہے۔ مودی کی نیویارک میں موجودگی کی وجہ سے پاکستان کے وزیراعظم کو بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے افتتاحی ایام میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہئے۔وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے چند ہی ہفتے بعد عمران خان صاحب کا دورہ نیویارک ان کا اہم ترین غیر ملکی دورہ بھی ہوسکتا ہے۔

غیر ملکی سربراہان ستمبر والے اجلاس سے خطاب کے ذریعے اپنا مو¿قف دنیا کے روبرو لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے ویسے بھی ہمیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی مسلسل ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ماضی کی حکومتوں سے ہمیں یہ شکوہ رہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے کماحقہ طریقے سے پیش نہیں کرپائیں۔ نواز حکومت کی تیسری حکومت اس ضمن میں خصوصی طورپر تنقید کا نشانہ بنی رہی۔کئی محبانِ وطن کو یقین کی حد تک یہ شبہ بھی رہا کہ چونکہ سابق وزیر اعظم ”مودی کے یار“ بن چکے ہیں اس لئے مسئلہ کشمیر کی بابت خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اندر کی خبر جاننے والے کئی صحافیوں کا بلکہ یہ اصرار بھی رہا کہ نواز شریف محض ”مودی کا یار“ ہی نہیں ایک بہت بڑے بھارتی صنعت کار سجن جندل کے مبینہ طور پر تجارتی شراکت داربھی ہیں۔

جندل شریف خاندان کی طرح لوہے کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ افواہ یہ بھی چلی تھی کہ وہ افغانستان سے خام لوہا نکالنے کے لئے کچھ کانیں خریدنے کے چکر میں تھا۔ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں انہیں اُکساتا رہا کہ افغانستان سے نکالے خام لوہے کو اس کی بھارت میں قائم فاﺅنڈریوں تک بآسانی پہنچانے کے لئے پاکستان اپنے ریل کے نظام کو افغانستان تک پھیلادے۔ وزیراعظم کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ شاید اس میں انہوں نے اپنے کاروبار کا فائدہ بھی دیکھا ہوگا۔ قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والے مگر اس گیم کو بھانپ گئے۔ بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔ نواز شریف بھی پانامہ کی وجہ سے فارغ ہوگئے۔ کسی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل ہوجانے کے بعد اب اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

عمران خان صاحب کا کوئی ذاتی کاروبار ہی نہیں لہذا معاشی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچتے ہیں۔کرشمہ ساز شخصیت ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس سال ستمبر میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر کشمیرکے حقائق کو بیان کیا تو عالمی برادری اس ضمن میں اپنی بے حسی برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ بنی گالہ سے جاری ہوئی پریس ریلیز نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ خان صاحب نے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو نہ صرف اپنے منصب پر برقرار رہنے بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ ماہ ہونے واے اجلاس کے لئے بھرپور تیاری کا حکم دیا ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کے ذریعے عمران خان صاحب عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کی بابت ٹھوس اقدامات اٹھانے پر قائل کرنے کو بے تاب ہیں۔

میری شدید خواہش ہے کہ حقیقت ویسی ہی ہو جیسے میں سوچ رہا ہوں۔اس حقیقت کا مگر بنی گالہ سے جاری شدہ خبر اور تصویر میں اظہار نہیں ہوا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی سفارت کار تعینات ہونے سے قبل ایک جید صحافی تھیں۔ ایک نہیں دو انگریزی اخبارات کی مدیر بھی رہیں۔ ایک اخبار میں مجھ دو ٹکے کے رپورٹر کو ان کی ادارت میں کام کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔ بہتر ہوتا اگر مذکورہ ملاقات کی خبر ڈاکٹر صاحبہ ہی سے لکھوادی جاتی تاکہ مجھ ایسے کم علم اور بے وسیلہ صحافی ان کی پاکستان کے متوقع وزیراعظم سے ہوئی ملاقات کے بارے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے گریز پر مجبور ہوجاتے۔
٭٭٭٭٭

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے