باجوہ ان کنٹرول

رات کے 12 بج رہے تھے۔ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں لیکن نیند ٹالنے کی بچگانہ خواہش بھی انگڑائیاں لے رہی تھی۔ خیال آیا بڑے دنوں سے ٹی وی نہیں دیکھا کم از کم جیو کے بلیٹن پر ہی نظر ڈال لو۔

گذشتہ دو برس سے یہ بھی ایک سسپنس ہی رہتا ہے کہ جیو آ رہا ہے یا نہیں اور اگر آ رہا ہو تو اس پر بھی غور کرنا پڑتا ہے کہ چینل تو آ رہا ہے لیکن چینل پر کیا آ رہا ہے۔

خبریں شروع ہوئیں۔ پہلی خبر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ، دوسری خبر سپہ سالار باجوہ صاحب، تیسری خبر، جی ہاں پھر جنرل باجوہ صاحب۔ اس کے بعد کچھ الیکشن کے بارے میں دوبارہ گنتی شروع، دوبارہ گنتی رک گئی۔

پہلے تو اس بات کی خوشی ہوئی کہ ریاست کے دو بڑے ستون یعنی پاکستان کی فوج اور ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ایک بار پھر ایک پیچ پر آ گئے ہیں۔ پھر تھوڑی فکر ہوئی کہ کچھ زیادہ تو نہیں ہو گیا۔

جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دور کے میڈیا کی کچھ موہوم کی یادیں باقی ہیں۔ تب بھی ہیڈلائن تو جنرل صاحب کے بارے میں ہوتی تھی لیکن دوسرے تیسرے نمبر پر ان کے مصاحبین کو ان کی اوقات کے مطابق موقع دیا جاتا تھا۔ لیکن پھر یہ کیا ہوا کہ ایک نمبر بھی میں۔ دو نمبر بھی میں، تیسرا بھی میرا۔

پھر صحافی بن کر سوچنے کی کوشش کی تو احساس ہوا کہ بلیٹن کے ایڈیٹر نے سو فیصد درست فیصلہ کیا ہے۔ انسان نے کتے کو کاٹا والا صحافتی اصول لگایا جائے تو یہ ایک شاندار ادارتی فیصلہ تھا۔

پہلی ہیڈلائن میں اعلان ہوا کہ جنرل باجوہ نے اس معذور لڑکی کی تعریف کی ہے جو بڑی بہادری سے ووٹ ڈالنے گئی تھی اور جسے سارے ٹی وی چینلز نے دکھایا تھا۔ جنرل صاحب نے یہ بھی وعدہ کیا کہ اس بہادر لڑکی کو فوج نوکری دے گی۔

پاکستان کی فوج جو چاہے کر سکتی ہے اور کرتی بھی ہے لیکن ظاہر ہے بہادر معذوروں کو روزگار فراہم کرنا اس کے فرائض میں شامل نہیں۔ اسے فوجی محاورے کے مطابق beyond the call of duty کہتے ہیں تو خبر تو بنتی ہے۔ ویسے بھی آنے والی حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ باجوہ صاحب نے ایک فراہم کر کے ان کا کام آسان کر دیا۔

دوسری ہیڈلائن میں برازیل کی فوج کے سربراہ نے جنرل باجوہ سے ملاقات کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی خدمات کی تعریف کی۔ قوم برازیل اور پاکستان کے دفاعی تعلقات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی لیکن جیسے بھی ہیں پائیدار ہیں ورنہ سویلین تو برازیل کا نام سنتے ہیں فٹبال کے ماہر بن جاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے اس تاریخی ملاقات میں یہ نہیں پوچھا گیا ہو گا کہ رونالڈو بڑا ہے یا میسی۔

تیسری خبر اس سے بھی شاندار تھی۔ ایک غیرملکی کوہ پیما کو پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر نے ریسکیو کیا اور جنرل باجوہ اس کی عیادت کو پہنچے۔ اب پاکستان میں ٹورازم کو بڑھاوا دینے اور پاکستان کو سوفٹ امیج دکھانے کا اس سے اچھا طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔

میرے صحافتی برادری کے بھائی آج کل پھر آزادئ صحافت کا موسمی ماتم کر رہے ہیں۔ کرنا بھی چاہیے۔ ہم صحافی بھی انسان ہیں، ہمارے مالک بھی بندے بشر ہیں۔ کبھی ہم ڈٹ جاتے ہیں، کبھی گوڈے گٹے پکڑ لیتے ہیں بلکہ کبھی تو ایک ہاتھ میں آزادئ صحافت کا پرچم تھامتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اس آزادی پر قدغن لگانے والوں کے پیر پکڑ لیتے ہیں۔

لیکن اس بلیٹن سے یہ سبق ملا کہ صحافتی دیانت کا بھرم بھی رکھا جا سکتا ہے اور ملک کے اداروں کو سلامی بھی دی جا سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بلیٹن باجوہ صاحب کے احکامات پر نہیں بنایا گیا، نہ ہیڈ لائن کسی کرنل یا بریگیڈیئر نے لکھوائیں۔ یہ صرف ایک مثبت سوچ کا نتیجہ ہے۔

ایک پیج پر رہنا ہے تو اسی مثبت سوچ کو اپنانا ہو گا ورنہ نہ کوئی صفحہ رہے گا نہ کوئی کتاب۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے