تاریخ میں کتنے شیر شاہ سوری ہوگزرے ہیں

جس نے وقت کو کھو دیا‘ بعض اوقات سبھی کچھ کھو دیتا ہے۔ مشکل میں تذبذب ایک دوسری مشکل ہے۔ وہ بچے جنتا ہے اور کبھی کبھی تو سنپولیے۔

گاہے‘ افواہوں کی گرم بازاری بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ سرگوشیوں اور چہ میگوئیوں سے سازش پھوٹنے لگے تو خرابی کا آغاز۔ پختون خوا میں وزیر اعلیٰ کے تقرر میں تاخیر کا نتیجہ اچھا نہ نکلا۔ قیاس آرائی ہے کہ کچھ دنوں کے بعد‘ اس منصب پہ کوئی دوسرا براجمان ہو گا۔ دلیل یہ ہے کہ جس آدمی سے دو عہدے واپس لیے گئے‘ آخرکار کھیلوں کی وزارت پہ اکتفا کرنا پڑا‘ اس لیڈر کی قوت فیصلہ پہ کتنا بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔دو گروہوں کے تنازع میں وہ اتفاق رائے کا ثمر ہیں۔کب تک تنازع‘ کب تک اتفاق رائے؟

پنجاب میں اور زیادہ تاخیر ہے اور بظاہر اس کا کوئی معقول سبب نہیں۔

راشد خان کے گھر میں آرام کرسی پہ دراز عمران خان مائوزے تنگ کی کتاب پڑھ رہے تھے۔ عرض کیا کہ سرخ چین کا نظریاتی معمار آخری تجزیے میں ایک ناکام لیڈر تھا۔ بے شمار افراد اس کے عہد میں قتل کئے گئے۔ آزادیاں سلب کر لی گئیں۔ شخصیت پرستی کو فروغ دیا گیا۔ معاشی طور پہ ملک تباہ حال رہا۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کی سوانح سمیت‘ کچھ کتابیں پیش کیں کہ ان کا مطالعہ کرے۔ عمرؓ تاریخ کے عظیم ترین منتظمین میں سے ایک تھے۔ انتظامی ہی نہیں‘ سیاسی‘ عسکری اور علمی اعتبار سے بھی نابغہ‘ Genius۔ قائد اعظمؒ کی زندگی کو بغور پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔ وہ جدید تاریخ کے مسلمہ مدبرّین میں سے ایک تھے‘ خیرہ کن بصیرت‘ آخری درجے کے حقیقت پسند اور ہر حال میں اصولوں کے پاسدار۔

سیدنا فاروق اعظمؓ کسی ذہین اور فصیح آدمی کو دیکھتے تو اندیشہ پالتے۔ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں انہی کا کردار فائق ہوتا ہے۔ احنف بن قیسؒ کو دیکھا تو سال بھر اپنے پاس رکھا۔ وہ اپنے عہد کے نامور عالم ‘ سپہ سالار اور خطیب بن کے ابھرے۔ حسنِ کلام میں ان کی مثال دی جاتی ہے۔ تحمل اور صبر میں ضرب المثل ہو گئے۔ ان اوصاف پر کسی نے حیرت کی تو کہا: اللہ کا شکر ہے‘ فاروقِ اعظمؓ کی صحبت میں رہا ہوں۔ فاروقِ اعظم ؓ نے جناب موسیٰ اشعریؓ کے پاس بھیجا تو لکھا کہ وہ ہزار آدمیوں کے برابر ہیں۔

ایک صحابی تشریف لائے‘ شاندار مشورہ دیا تو فرمایا: آپ کو میں نے گورنر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلوتہی کی کوشش کی تو فرمایا: یہ نہیں ہو سکتا کہ تمام کی تمام ذمہ داری مجھ پہ ڈال دو۔ تمہیں میرا ہاتھ بٹانا ہو گا۔ جب تک زندہ رہے‘ اصرار کے باوجود ان کی معذرت قبول نہ کی۔

بعض چیزوں پہ جناب امیر معاویہؓ اور جناب عمرو بن العاصؓ کو بار بار تنبیہہ کرتے۔ مگر منصب سے کبھی الگ نہ کیا۔
اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے فرزند سے کہا تھا: سلطنت کا پیچیدہ کاروبار‘ بہترین آدمیوں کے بل پہ چلایا جاتا ہے۔ اعتمادکیا جائے تو پھر کرنا چاہیے۔ ان سے منہ نہیں پھیرا جاتا۔

پنجاب کا وزیر اعلیٰ اہم ہوتا ہے‘ کبھی کبھی تو وزیر اعظم اتنا ہی۔ صدیوں اس کہاوت کی گونج سنی جاتی رہی کہ جس کا ملتان مضبوط ہو گا‘ اس کا پنجاب مضبوط۔ اب شاید یہ کہنا چاہیے کہ لاہور جس کا مضبوط ہو گا‘ اس کا اسلام آباد مضبوط۔

شمالی اور جنوبی پنجاب کے برعکس‘ وسطی پنجاب نے شریف خاندان پہ اعتماد کا اظہار کیا۔ 41 میں سے قومی اسمبلی کی 32 سیٹیں انہوں نے جیت لیں۔ اس کا مداوا محض چوہدری برادران کی اعانت اور نون لیگ پر سیاسی دبائو سے نہیں ہو گا۔ کارکردگی دکھانا ہو گی۔ امن و امان‘ ٹیکس وصولی‘ تعلیم اور صحت کے علاوہ‘ سیاسی دانش اور آہنگ سے۔

کس طرح یہ معرکہ سر ہو گا؟

عمران خان کو کتنے ہی پسند ہوں مگر معاف کیجئے گا‘ چکوال کے راجہ یاسر ہمایوں سرفراز‘ سرخرو نہ ہوں گے۔ ان پہ سنگین الزامات ہیں۔ اس آدمی کو وزیر اعلیٰ بنانے کا مطلب یہ ہو گا کہ حسنِ کردار اور عوامی احساسات کی کپتان کو کوئی پروا نہیں۔

لاہور کے میاں اسلم اپنے غیر معمولی‘ تحرّک اور احساس ذمہ داری سے پہچانے جاتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں ایم این اے میاں حماد اظہر کی فتح میں ان کا کردار بنیادی ہے۔ پارٹی سے مخلص رہے۔ ہر وقت کام میں جتے رہتے اور مشکل حالات میں راہ تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

42 سالہ حسنین دریشک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاموش طبع‘ محنتی اور مرتب آدمی ہیں۔ 5000 ایکڑ زرعی اراضی کی کاشت خود کرتے ہیں۔ براہ راست نگرانی سے‘ حتیٰ کہ بعض اوقات خود ٹریکٹر پہ سوار ہو جاتے ہیں۔ تعلیم ایچی سن اور گورنمنٹ کالج لاہور سمیت اچھے اداروں میں پائی‘ الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ پرویز الٰہی نے وزیر خزانہ مقرر کیا تو تیزی سے سیکھنے کی کوشش کی اور داد پائی۔

سبطین خان با وقار آدمی ہیں۔ ان کے مزاج میں سادگی اور بے ساختگی ہے‘ دنیا میں جو شاذ ہوتی ہے ۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا: تمام دانائی کا نصف گھلنا ملنا ہے۔ ایک انسان دوست ہی یہ طرزِ عمل شعار کر سکتا ہے۔ دھن دولت سے سبطین خان کو شغف نہیں۔ زمین بیچ کر الیکشن لڑتے ہیں۔ فرش پہ بیٹھ جاتے‘ دال ساگ کی دعوت میں بھی خوش دلی سے شریک۔

حیرت ہے کہ علیم خان اور شاہ محمود کا اب بھی نام لیا جاتا ہے۔ یہ بحث اب تمام ہونی چاہیے۔ شاہ محمود باتوں کے دھنی ہیں‘ عمل کے نہیں۔ ٹیم کے ساتھ نہیں‘ وہ تنہا کھیلتے ہیں۔ جس کے خلاف ہو جائیں عمر بھر اس سے ڈرتے اور اس کے درپے رہتے ہیں‘ ایک غیر محفوظ آدمی کی نفسیات۔ اوکاڑہ‘ منڈی بہائوالدین اور ملتان سمیت ضمنی الیکشن میں جب بھی کسی کو ٹکٹ دلوایا‘ لازماً وہ ہار گیا۔ بہت پہلے عمران خان سے عرض کیا تھا کہ ایسا آدمی دھڑے بندی سے باز آ ہی نہیں سکتا۔

یاسمین راشد دوسروں سے زیادہ مقبول ہیں‘ مگر عمران خان انہیں فقط صحت کی وزارت سونپنا چاہتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ پارٹی کے جغادری اس آزاد رو کے خلاف ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جیسی تکریم ان کی ہے‘ کسی اور کی نہیں۔ ایک شاندار منتظم‘ بے حد ریاضت کیش۔ ابدی اقدار اور جدید اندازِ فکر۔ 28 برس تک پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی عہدے دار رہیں۔ یکسوئی غیر معمولی اور عاجزی بھی۔ چیلنج قبول کرنے کی خو۔ درباری سازشیں ان کے ہوتے پنپ نہ سکیں گی۔

انیسویں صدی کے نامور ادیب ایمرسن نے کہا تھا: "What you are, shouts so loudly in my ears I cant hear what you say.” میرے کان میں تمہارے کردار کی صدا اتنی بلند ہے کہ تمہاری آواز مجھے سنائی نہیں دیتی۔

یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکی کہ اٹک کے میجر طاہر صادق کا نام اب کیوں سنائی نہیں دے رہا۔ پنجاب کی سیاست کے نشیب و فراز سے آشنا‘ وہ ایک مقبول آدمی ہیں۔

یاسمین راشد کو وزیر اعلیٰ بنانے کا مطلب یہ ہو گا کہ خواتین اور درمیانے طبقے میں‘ پارٹی کی مقبولیت بڑھ جائے۔ میڈیا کا تعاون بھی کہ وہ خوش کردار ہیں‘ زیادہ محترم۔

چند دنوں میں جو تھوڑی سی تحقیق کی اور جس قدر غوروفکر ممکن ہو سکا‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد‘ سبطین خان‘ میاں اسلم اور حسین دریشک میں سے جس کو بھی وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے‘ کامیابی کا امکان ہے۔

تحقیق اور مشاورت کے بغیر کیے جانے والے فیصلے بودے اور ناقص ہوتے ہیں۔ تعجیل خطرناک ہے لیکن غیر ضروری تاخیر بھی۔

مشورہ ماہرین سے کرنا چاہیے۔ ان سے کبھی نہیں‘ جو تعّصب‘ گروہ بندی اور ذاتی مفاد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ عمران خان کا استدلال قابل فہم نہیں کہ قیادت کسی نوجوان کو سونپی جائے۔ ناتجربہ کاری کوئی وصف نہیں۔ استثنائی طور پر ہی جواں سال لیڈر کامیاب ہوتے ہیں۔ وہ منفرد لوگ جو تیزی سے سیکھ سکتے ہوں۔ شیر شاہ سوری کی طرح‘ وہ جو وقت رائیگاں نہیں کرتے‘ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔ تاریخ میں کتنے شیر شاہ سوری ہو گزرے ہیں۔

قحط الرّجال ہے‘ قحط الرّجال۔ دستیاب میں سے بہترین کا انتخاب کرنا چاہیے اور بروقت۔ وقت جس نے کھو دیا‘ بعض اوقات سبھی کچھ کھو دیتا ہے۔ مشکل میں تذبذب ایک دوسری مشکل ہے۔ وہ بچے جنتا ہے اور کبھی کبھی تو سنپولیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے