شاہی پولیس

گذشتہ رات تھانہ ملت ٹاون پولیس کے اہلکاروں نے کمال مہارت اور پوری جاں فشانی کے ساتھ ناکے پہ دو نوجوانوں کو روکنے کا اشارہ کیا نوجوان رکنے کی بجائے موقع سے بھاگنے لگے تو پولیس اہلکاروں کے فرض نے انہیں جھنجھوڑا کے اسی دوران پولیس اہلکاروں سے گولیاں چل گئیں اور دونوں جوان(مبینہ ڈاکو) خون میں لت پت سڑک پر ڈھیر ہو گئے

پولیس اہلکاروں نے پنجاب پولیس کی موبائلز پر درج نعرے "نفرت انسان سے نہیں جرم سے ہے” کو یاد کیا اور انسانی ہمدردی کے تحت زخمی نوجوانوں کو الائیڈ اسپتال منتقل کر دیا

ایک نوجوان ارسلان جس کی عمر 17 سے 19 سال کے درمیان تھی موقع پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا جبکہ 18 سالہ عثمان اسپتال میں دوران علاج دنیا سے منہ پھیر گیا

پولیس نے نہایت مستعدی سے کام کرتے ہوئے اس دوران دونوں نوجوانوں کے خلاف پولیس پر فائرنگ کرنے کا مقدمہ درج کیا اور ساتھ ہی ساتھ غیبی مدد سے برآمد کئے گئے اسلحے کو بھی نوجوانوں سے منسوب کر دیا گیا

اعلی پولیس افسران سے شاباشی وصولنے کے لئے پولیس نے پوسٹمارٹم بھی بروقت کروا لیا اور تمام تر قانونی کاروائی مکمل کر لی

جونہی نوجوانوں کے اہلیخانہ کو علم ہوا کہ پولیس نے گھر سے شوارما کھانے نکلے انکے گھر کے چراغوں کو بجھا دیا ہے تمام لوگ اسپتال پہنچے جہاں پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ انکے بچے اس شہر کے "جے کانت شکرے” تھے جن کے قبضہ سے اسلحہ اور گولا بارود بھی برآمد ہوا ہے

والدین غم کی حالت میں ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکال پائے البتہ میڈیا نمائیندگان کو بتایا گیا کہ ارسلان نے میٹرک کے امتحان میں 900 سے زائد نمبر حاصل کئے تھے جبکہ عثمان 500 سے زائد نمبر لیکر علم کے اگلے سفر کے کئے پر امید تھا

انہی نوجوانوں میں پولیس کی جانب سے مار گرائے جانا والا عثمان ہیڈ کانسٹبل کا بیٹا تھا اسکے بد نصیب باپ کو موقع پر پہنچنے تک یہ معلوم نہ تھا کہ اسکا اپنا ہی لخت جگر پیٹی بندھ بھائیوں نے طاقت کے نشے میں مار ڈالا ہے

تمام دن اہل علاقہ اور لواحقین لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کرتے رہے پولیس کی بے حسی معاشرے کو بتاتے رہے مگر پولیس کے اعلی افسران اپنے اہلکاروں کے اس بڑھیا کام اور فرض شناسی پر کسی کی انگلی برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے دفاتر میں دبک کر بیٹھے رہے

مشتعل مظاہرین سڑک پر راہگیروں سے بھی الجھتے رہے جبکہ متعدد گاڑیاں بھی توڑ ڈالیں مگر پولیس اہلکار اپنے پیٹی بندھ بھائیوں کی اس ہائی پرفارمنس پر مرنے والوں کے ورثا کو دلاسہ تک دینا گناہ سمجھتے رہے

شام گئے جب مظاہرین نے مزید توڑ پھوڑ شروع کی تو سی پی او اور دیگر اعلی افسران نے شہر کا امن و امان خراب ہونے سے بچانے کے لئے اپنے 5 اہلکاروں پر مقدمہ درج کر لیا اور ایس ایس پی آپریشنز کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بھی بنا دی جو مرنے والے ارسلان اور عثمان کے گناہ گار ہونے یا بے گناہی کا فیصلہ کرے گی

اب کچھ بات ہو جائے شہر کے امن و امان کی تو یوں ہے کہ برگر شوارم کھانے کے لئے نکلنے والے طالب علموں پر بارود کا چھڑکاو کرنے والے بہادر پولیس کے جوان شہر میں بڑھتی وارداتوں اور جرائم سے بے خبر ہیں

چند روز قبل ایک ہی روز میں دو وکلا پر فائرنگ ہو گئی مگر پولیس کو نامعلوم افراد کا سرغ نہ ملا آئے روز چوری ڈکیتی اور راہ زنی کی وارداتوں سے شہری پریشان ہیں مگر پولیس صرف ٹارگٹڈ آپریشنز کے ذریعے پہلے سے برآمد شدہ اسلحہ طالب علموں سے منسوب کر کے اپنی ایکٹیویٹیز کو ہائی لائیٹ کرنے میں مصروف ہے

شہر میں دن دیہاڑے ہونے والی وارداتوں کے سراغ تو پولیس اہلکاروں کی نظر سے نہیں گزرتے البتہ عام شہری جن کا جرائم سے واسطہ نہیں انہیں ناکوں پر روک کر فائر رسید ضرور کئے جا رہے ہیں

تحریر پڑھنے والے دوست اس بات کو ذہن میں ضرور لائیے گا کہ ساعی تحریر میں صرف پولیس کی نا اہلی بیان کی گئی ہے یا ذاتی پرخاش نکالی جا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچئیے گا کہ مرنے والا عثمان 5 بہنوں کا اکلوتا بھائی اور والدین کا اکلوتا سہارا تھا جسے پولیس کے بہادر سپوتوں نے راتوں رات دہشتگرد قرار دیکر چوراہے میں مار گرایا

اور مرنے والے ارسلان کی ماں کا سکتے اور غم میں ڈوبا چہرہ بھی سامنے رکھئیے گا جسے شاہی پولیس نے موت کے گھاٹ اتار دیا

اس پورے واقعے میں پولیس نے تمام کام بروقت کر لئےمگر اپنے سنئیر افسران اور میڈیا کے سامنے ان دونوں نوجوانوں کے کریمنل ریکارڈ پر مشتمل ایک صفحہ بھی پیش نہ کر پائے

نگران حکومت یا اس سے پہلی حکومت کے ذمے مستقبل کے ان معماروں کا قتل ہے اسکا فیصلہ یہاں کونسی عدالت یا قانون کرے گا کہنا مشکل ہے

البتہ پولیس والوں سے ایک التجا ہے کہ برگر یا شوارما کھانے کے لئے نکلنے والوں کو متعلقہ تھانوں سے این او سی ضرور جاری کریں تا کہ مستعد اہلکاروں کو ناکے پر این او سی دکھا کر جان کی امان پائی جا سکے

ملکی حالات میں سیاسی محفلیں اور بحث وباحثہ زور و شور سے جاری ہے تحریر بے وقعت کا مقصد صرف یہ تھا کہ شاہی پولیس سے خود کو اپنی مدد آپ کے تحت بچائیے اور عزیز و اقارب کو بھی انکے سامنے سے گزرنے پر منع رکھئیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے