نواز شریف سخت سکیورٹی میں احتساب عدالت میں پیش

نواز شریف کی لندن فلیٹ ریفرنس میں گرفتاری کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ انہیں جیل سے دیگر ریفرنسز کی سماعت کے لیے عدالت لایا گیا۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ریفرنسز کی سماعت کے موقع پر پیر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش کردیا گیا۔

نواز شریف کی لندن فلیٹ ریفرنس میں گرفتاری کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ انہیں انہیں جیل سے دیگر ریفرنسز کی سماعت کے لیے عدالت لایا گیا۔

احتساب عدالت نمبر دو کے جج ارشد ملک نے کیس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت عدالت نے تفتیشی افسر محبوب عالم اور نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا کو بدھ کو طلب کرلیا۔

عدالت نے نوازشریف کو بھی بدھ کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو اڈیالہ جیل سے سخت سکیورٹی کے حصار میں ایک بکتر بند گاڑی میں احتساب عدالت لایا گیا۔

اس موقع پر اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

اس موقع پر جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں موبائل فون لے جانے پر بھی پابندی تھی جب کہ نواز شریف کے روٹ پر 200 سے زائد سکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔

نواز شریف کی عدالت پیشی کے وقت صحافیوں کو عدالت میں داخلے سے روک دیا گیا جس پر صحافیوں نے احتجاج کیا اور کوریج کرنے کی اجازت نہ دینے پر احاطۂ عدالت کے باہر نعرے بازی بھی کی۔

صحافیوں کو نواز شریف کی تصویر بنانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تاہم جب انہیں بکتر بند گاڑی میں عدالت سے واپس لے جایا گیا تو اس وقت میڈیا کو چند لمحوں کے لیے ان کی تصویر یا فوٹیج بنانے کا موقع ملا۔

سابق وزیرِ اعظم کی پیشی کے موقع پر سکیورٹی پر تعینات ایک پولیس اہلکار سے غلطی سے ہوائی فائر ہوگیا جس کے بعد وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں میں کھلبلی مچ گئی۔

حکام کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار کو معطل کردیا گیا ہے اور اس سے گن واپس لے لی گئی ہے۔

پاناما لیکس اسکینڈل میں دیے جانے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف تین ریفرنسز دائر کیے تھے جن کی سماعت احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر کر رہے تھے۔

جولائی میں احتساب عدالت نے لندن فلیٹ سے متعلق ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف، ان کی صاحب زادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو بالترتیب 11 سال، آٹھ سال اور ایک سال قید کی سزائیں سنائی تھیں۔

نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو 13 جولائی کو لندن سے وطن واپسی پر لاہور ایئرپورٹ پر طیارے سے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا جب کہ کیپٹن صفدر نے اس سے چند روز قبل راولپنڈی میں گرفتاری دے دی تھی۔

لندن ریفرنس میں سزا سنائے جانے کے بعد نواز شریف کے وکلا نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے موکل کے دیگر دو مقدمات دوسری عدالت منتقل کیے جائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو روز قبل سابق وزیرِ اعظم کی جانب سے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی جس کے بعد اب احتساب عدالت نمبر 2 میں یہ مقدمات زیرِ سماعت ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے