جام و پیمانہ بدلا،میخانے کا نظام بدلو

رواں ماہ مملکت خداداد پاکستان کو معرض وجود میں آئے ۱۷ سال ہوگے مگر کئی دہائیوں تک قوم روتی رہی کہ مزاج سیاست بدلا جائے،نظام بدلا جائے،اور انداز حکمرانی بدلا جائے مگر یہاں صرف چہرے بدلتے رہے،نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی۔چند خاندان جنہوں نے ملک کے اتنے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے ان کے علاوہ کوئی میدان سیاست میں اترنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اگر کوئی اترا بھی تو دو چار دن میں اس کا سارا نشہء انقلاب اتر جاتا رہا ،چند دنوں میں یہ حقیقت اس پر عیاں ہو جاتی رہی کہ یہاں انتخابات ملکی مسائل،کسی منشوراور کسی نصب العین کی بنیاد پر نہیں بلکہ برادری ،غنڈہ گردی اور نوٹ کے زور پر لڑے جاتے ہیں،یہاں مزارع چوھدری کے رحم و کرم پر جیتا ہے،غریب امیر کی چاکری کرتا ہے اور کمزور طاقتور کی غلامی کرتا ہے۔

ایک مدت تک اس ملک کا باشعور طبقہ اپنے آپ سے سوال کرتا رہا کہ کیا اتنے برسوں میں اس ملک میں ماؤں نے صرف گجر اور جاٹ جنم دئیے ہیں؟ کھوسے اور دریشک پیدا کئیے ہیں؟عباسی اوربھٹو گود لیئے ہیں؟کیا اس ملک کا سیاسی اثاثہ صرف آلِ مینگل،بھگٹی،شریف اور زرداری ہیں؟کیا یہاں سیاست کی بیہودگی اور غلاظت کا کاروبار یوں ہی جاری رہے گا؟یہاں یوں ہی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت لوٹ مار کا دھندہ جاری رکھیں گی؟کیا غریب عوام کا خون یوں ہی نچوڑا جاتا رہے گا؟کیا اشرافیہ اور ان کی اولادیں کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آئیں گی؟کیا یہ نظام کبھی نہیں بدلے گا؟ ایسے متعدد سوالات ایک عرصہ تک اس ملک کے باشعور طبقہ کے ذہن کی دیواروں سے ٹکرائے اور کوئی جواب نہ پاکر لوٹ گئے۔

سال پہ سال گزرتے گئے یہ نظام عوام کو لٹارتا،چباتا اور ڈکارتا رہا ،ایک ہی انداز میں ایک ہی قماش کے لوگ آتے رہے اور سانپ بن کر عوام کو ڈس کر جاتے رہے۔انہی حالات میں نامکمل اور تشنہ سیاسی ہنوز کی مالک سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بازیچہ اطفال بلکہ یرغمال بنے اس سیاسی نظام میں ایک سیاسی جماعت نے جنم لیا جس کا نام پاکستان تحریک انصاف تھا، اس جماعت کی قیادت کسی چوھدری،جاگیردار یا کسی سیاسی خاندان کے سپوت کے پاس نہ تھی بلکہ ایک کرکٹر عمران خان کے پاس تھی۔

عمران خان کی وجہ شہرت کرکٹ اور بالخصوص ۲۹۹۱ کا ورلڈ کپ تھامگر کرکٹ سے سیاست کا سفر کتنا دشوار گزار ہوگا اس کا اندازہ شاید تب خان صاحب کو نہ تھا۔خان صاحب نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے پاکستانی عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے ،نوجوانوں کو اقتدار تک پہنچانے اور نظام بدلنے کا نعرہ لگایا،یہ سب وہ باتیں تھی جو پاکستان جیسے ملک میں ایک خواب معلوم رہی تھیں اور ماضی کہہ رہا تھا کہ خان صاحب کا نشہء اصلاح اور خمار انقلاب بھی کچھ عرصہ کا مہمان ہے جلد ہی خان صاحب واپس اپنی دنیا میں لوٹ جائیں گے۔

سال پہ سال گزرتے گے عمران خان کے نعروں میں شدت آتی گئی ، نوجوان نسل کا خان صاحب کی طرف جھکاؤ بڑھتا گیااور حکمران وقت اسے موسمی تبدیلی مان کر اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے مگر خان صاحب نے نظام بدلو،عدل و انصاف کی حکمرانی اور نئے پاکستان کا راگ جاری رکھا اور اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف کے نام کا جو پودا خان صاحب نے لگایا وہ سارے موسم جھیل گیا،خان صاحب نے اس کی آبیاری جاری رکھی اور اسے سیاسی حریفوں سے بچاتے رہے اور یہ پودا ایک تناور درخت بنتا گیا۔

قارئین کرام:یہ عمران خان ہی تھے جو پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں نظام بدلنے اور کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لیکر سڑکوں پر نکلے تو کہنے والوں نے پاگل خان کہا مگر خان صاحب کے قدم نہیں ڈگمگائے۔یہ خان صاحب ہی تھے جو ۳۱۰۲ میں نواز شریف صاحب اقتدار میں آنے کے بعد سڑکوں پر آئے تو سیاسی حریفوں نے ذہنی مریض کہا مگر خان صاحب ڈٹے رہے اور پھر وقت نے دکھایا کی مملکت خداد اد میں بڑے بڑے سرمایہ داروں اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی راتوں کی نیندیں حرام ہوئیں،ائیر کنڈینشنز ماحول سے کبھی باہر نہ نکلنے والوں نے مہنیوں مہینوں عدالتی پیشیاں بھگتی،صاحب اقتدار کو اپنی کرسی چھوڑ کر عدالت میں ملزم بن کر کھڑا ہونا پڑا اور پھر انہی صاحب اقتدار کو مجرم بن کر پابند سلاسل ہونا پڑا۔

اس بات میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ یہ خان صاحب کی ہی تگ و دو تھی جس نے عوام کو کرپشن کے خلاف بولنے کی ہمت دی،اپنے حقوق کے لیئے آواز اٹھانے کی جرات دی اور وڈیروں کی غلامی سے آزادی کی امید دلائی اور شاید انہیں کاوشوں اور ان تھک محنت کا صلہ خان صاحب حالیہ انتخابات میں جیت کی شکل میں ملا ہے۔

اب جب عمران خان صاحب ایک طویل جدوجہد کے بعد اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ ہی آئے ہیں تو یہاں بے شمار سوالات ایک عام پاکستانی کے ذہن میں آرہے ہیں کہ اگر خان صاحب نظام بدلنا چاہتے ہیں تو کیا خان صاحب کو یہ گوارا ہوگا کہ وہ بشمول خوداپنے وزیروں مشیروں سے بقدر کفاف وسائل پاس رکھ کر باقی بحق سرکار منتقل کرائیں؟کیا خان صاحب میں یہ حوصلہ ہوگا کہ وہ آنے والے وقت میں بحثیت وزیراعظم عدالت میں ایسے پیش ہوں کہ نہ کوئی چوبدار ساتھ ہو اور نہ خان صاحب کے لئے ریٹائرنگ روم کھلے اور پھر اگر عدالت خان صاحب کے خلاف فیصلہ سنا دے تو انکے ماتھے پر شکن تک نہ ہو؟

کیا خان صاحب عمر بن عبدالعزیزؓ کی طرح اپنی اہلیہ سے کہیں گے کہ اپنا زیور،ہار وغیرہ سرکاری خزانے میں جمع کروادو کیونکہ میں آغاز اپنی ذات سے کرنا چاہتا ہوں؟

کیا خان صاحب کے وزیر ،مشیر حضرت عمرؓ کی طرح اپنی آل کو وصیت کریں گے کہ میرے بعد ساری دنیا امیر المونین بن سکتی ہے مگر میرا بیٹا عبداللہ نہیں؟ اگر یہ سب کچھ خان صاحب سے نہ ہو پایا تو کونسا ں نظام خان صاحب بدلیں گے؟اقربا نوازی کا کلچر کیسے ختم ہوگا؟سیاست سے خاندانی اجارہ داری کا نظام کیسے ٹوٹے گا؟

خان صاحب؛تبدیلی کا راگ الاپنا آسان ہے مگر عملی طور پر تبدیلی لانا اس سے بہت الگ ہے۔مکمل اور جامع تبدیل نہ ہی سہی مگر دوسرے درجے کا بھی جہاں انقلا ب آیا ہے وہاں قائدین نے بڑے عزم و کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔

ماوزئے تنگ کئی برسوں تک ایک ہی جیکٹ استعمال کرتا رہا ہے جو آج بھی میوزیم میں موجود ہے۔

لینن اقتدار کے دوران محمل کے بستر کی بجائے کئی برسوں تک دفتر کی میز پر سوتا رہا،خمینی کا قم میں کچا گھر موجود ہے اس کے علاوہ انکی کوئی جائیداد دستیاب نہ ہوسکی تھی۔

خان صاحب آپ نے تبدیلی کا بیڑا اٹھایا ہے تو وقت آن پہنچا ہے کہ آپ عملی نمونہ پیش کریں،پہلے خود کو اور اپنی ٹیم کو بدلیں کیونکہ کوئلہ دودھ میں ڈلنے سے سفید نہیں ہوا کرتا۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے