کارکن نعرے لگا رہے تھے لیکن نواز شریف غصے میں تھے

تیرہ اگست کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو اڈیالہ جیل سے کمانڈوز کی سیکیورٹی میں جوڈیشل کمپلیکس لایا گیا۔کریم کلر کی شلوار قمیض اور نیلے رنگ کی واسکٹ میں ملبوس میاں صاحب بکتر بند گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے تھے۔ آٹھ بج کر پچاس منٹ پر جب نواز شریف کا قافلہ جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہورہا تھا تو مسلم لیگ ن کا ایک بھی کارکن یا رہنما موجود نہیں تھا۔ پرویز رشید ،آصف کرمانی، اور بیرسٹر ظفر اللہ جوڈیشل کمپلیکس پہنچے ضرور تھے لیکن معلوم ہونے کے باجود وہ دوسرے گیٹ کی طرف نہیں گئے جہاں سے میاں صاحب کو لایا گیا۔

مجھ سمیت تمام رپورٹر بکتر بند گاڑی کی آہنی کھڑکی کی قریب سے فوٹیج بنانے کیلئے اپنی پوری کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح میاں صاحب کو فوٹیج حاصل کی جاسکے ۔ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ میاں صاحب کو فرنٹ سیٹ پر بٹھایا گیا ہوگا یہ تو تب ملوم ہوا جب قافلہ کمپلیکس کی عمارت کے اندر چلا گیا اور سب نے اپنے اپنے موبائل سے بنائی گئی فوٹیج کو غور سے دیکھا۔

فوٹیج بنانے کے بعد ہم واپس مرکزی دروازے کی طرف گئے تو ہمیں یہ بتا کر روک دیا گیا کہ ابھی تک ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات کی طرف سے میڈیا کو داخلے کی ہدایات نہیں ملیں ۔تمام رپورٹرز نے ادھر گیٹ کے باہر ہی احتجاج شروع کردیا تو سیکیورٹی اہلکار نے کہا کہ آپ ہر چینل سے ایک ایک رپورٹر کا نام دے دیں جسے منظوری کیلئے احتساب عدالت نمبر دو کے جج ارشد ملک کے پاس بھیجا جائے گا۔ فہرست مرتب ہوگئی ،احتجاج کچھ دیر کیلئے رک گیا ، اہلکار واپس آیا اور پانچ رپورٹرز کا نام پکارا، دنیا نیوز سے عامر عباسی، ایکسپریس ٹی وی ضیغم نقوی، سماء سے سہیل رشید،اے آر وائی سے شاہ خالد خان اور روزنامہ جنگ سے ایوب ناصر کو کمرہ عدالت تک رسائی کی اجازت دی گئی ہے باقی رپورٹرز اندر نہیں جاسکتے ۔

احتجاج پھر شروع ہوگیا، اہلکار کو بتادیا گیا کہ احتساب عدالت نمبر ایک میں ایون فیلڈ ،العزیزیہ اور فیلگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دوران جو طریقہ کار طے کیا گیا اب بھی اس پر عمل کرتے ہوئے کم از کم پندرہ رپورٹرز کو عدالت تک رسائی دی جانی چاہیے ۔ بات نہ بنی احتجاج چلتا رہا ،اسی دوران مسلم لیگ ن لندن کے ناصر بٹ ، سابق وزیراعظم شاہد خاقان کی بہن سعدیہ عباسی ، انجم عقیل اور سینٹر چوہدری تنویر بھی پہنچ گئے۔کچھ لیگی وکلاء بھی جوڈیشل کمپلیکس کے دروازے پر جمع ہوگئے اور نعرے بازی شروع کردی ۔”ووٹ کو عزت دو ” والا ترانہ لکھنے والا لیگی متوالا بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل تھا۔کل ملا کر 10-15 مسلم لیگی موجود تھے۔

ناصر بٹ نے ہم سے پوچھا کہ میاں صاحب کو کسی نے دیکھا ہے ؟ کوئی اندر جائے کم از کم یہ تو معلوم ہو کہ میاں صاحب ہتھکڑی لگا کر تو نہیں لایا گیا۔ہم نے بتایا کہ پرویز رشید اور بیرسٹر ظفر اللہ کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت ملی ہے وہ آکر صیحیح صورتحال بتاسکیں گے. صبح میاں صاحب بکتر بند گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے اور ہم دیکھ نہیں سکے کہ ہتھکڑی تھی یا نہیں ۔ احتجاج جاری رہا،نعرے بازی ہوتی رہی، اسی دوران ایک پولیس اہلکار سے غلطی سے گولی چل گئی.

سماعت ختم ہوگئی اور میاں صاحب کو جوڈیشل کمپلیکس سے دوبارہ اڈیالہ منتقل کرنے کا وقت آن پہنچا۔جو دس پندرہ مسلم لیگی موجود تھے وہ اب پچھلے دروازے کی طرف آگئے۔ بکتر بند گاڑی کمپلیکس سے باہر آئی لیگی کارکنوں اور رہنماوں نے نعرے بازی شروع کردی،گاڑی کے سامنے آنے کی کوشش کی،میں بکتر بندگاڑی کے قریب تھا جہاں سےمیں میاں صاحب کے چہرے پر سنجیدگی اور غصے کے ملے جلے تاثرات پڑھ سکتا تھا،کارکن نعرے لگا رہے تھے لیکن میاں صاحب کوئی جواب نہیں دے رہے تھے بس سامنے والی سکرین پر دیکھ رہے تھے .

کچھ متوالے گاڑی کے آگے آنے میں کامیاب ہوگئے تو میاں صاحب نے ایک بار ہاتھ ہلایا وہ لمحہ میرے کیمرے میں محفوظ ہوگیا۔میں بھی دیگر رپورٹرز اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ بکتر بند گاڑی کے ساتھ دوڑ رہا تھا۔ میرا فوکس میاں صاحب تھے میں ان کے تاثرات دیکھ رہا تھا ۔

شاید میاں صاحب ان پارٹی رہنماوں کے بارے میں سوچ رہے تھے جو عین اسی وقت سج دھج کے قومی اسمبلی میں حلف لینے پہنچے ہوئے تھے،

شاید میاں صاحب ان وعدوں کو یاد کررہے جو پارٹی رہنماوں نے کررکھے تھے کہ اگر آپ کو کچھ ہوا تو عوام کا سیلاب سڑکوں پر لے آئیں گے،

شاید میاں صاحب اپنے بھائی کے بارے میں بھی سوچ رہے تھے کہ کم از کم اظہار یکجہتی کیلئے آجاتے،

اب میاں صاحب کاقافلہ جوڈیشل سے نکل کر پہلی موڑ مڑ رہا تھا اور دوسری طرف سے درجن بھر کارکن آئے اور نعرے بازی شروع کردی قافلہ چل پڑا تھا ۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے