بیچارے سرخے اور لاچار سبزے

گزرے چند برسوں سے 23 مارچ، 14 اگست، 6 ستمبر اور دوسرے قومی دنوں ( یہ قومی دن فوجی نہیں حکومتی اور سرکاری سطح منائے جاتے ہیں ) کے موقع پر "سرخ ” اور "سبز ” مارکہ ” نابغوں ” کو ” انٹیلیکچوئل ڈائریا” لاحق ہو جاتا ہے۔

ان دنوں تو ” سرخوں ” اور ” سبزوں ” کی ” نفسیاتی گرہیں” اور ” فکری مغالطے” عروج پر ہیں۔ اپنی مرضی کا موقع ملنے پر ان ” سرخوں ” اور ” سبزوں ” دونوں نے جی بھرکے ” فوجی اسٹیبلشمنٹ” کی ” ٹاوٹی ” کی ہے۔ "سرخوں ” کو اپنے مسائل کا حل پہلے فوجی آمر ایوب خان کی ” جدت پسندی ” اور پھر چوتھے فوجی آمر پرویز مشرف کی ” روشن خیالی” میں نظر آیا تھا جبھی دونوں بار جمہوریت پر دو حرف بھیج کر برسوں ان دو آمروں کی گود میں بیٹھ کر اپنے مسائل ” حل ” کرتے رہے۔ دوسری جانب ” سبزوں کو اپنے مسائل کا حل تیسرے فوجی آمر ضیاالحق کی ” اسلام پسندی ” میں نظر آیا تو عوام کی مردم شناسی کے نظام پر لعنت بھیج کر برسوں ” مر مومن” کے نعرے لگاتے رہے۔ ویسے دوسرا فوجی آمر جنرل یحیی خان اس لحاظ سے خوش نصیب تھا کہ اسے موقع کی مناسبت سے ” سرخوں اور سبزوں ” دونوں کی حمایت حاصل رہی۔ "سرخے” مغربی پاکستان میں اور "سبزے” مشرقی پاکستان میں جی بھر کے جنرل یحیی خان کی ” دلالی ” کرتے رہے۔

ویسے آج کل یہ سرخے اور سبزے دونوں فیشن کے طور پر اپنا ” جمہوری حق ” استعمال کرتے ہو ئے بظاہر فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرکے ” غدار ” کا ایوارڈ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ارے بھائی اب کے آپ کو ” غداری کا ایوارڈ ” نہیں ملنے والا کیونکہ یہ بازوں آپ کے ” آقاووں ” کے آزمائے ہو ئے ہیں۔ اور ویسے بھی سرخوں کا مقصد پاکستان میں اپنی مرضی کی روشن خیالی نافذ کرنا اور سبزوں کا مقصد پاکستان میں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا ہے ۔ ان دونوں کا جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

یہ سرخے عوامی زبان میں "کھبے” اور سبزے عوامی زبان میں "سجے ” بھی کہلاتے ہیں۔ زرا پڑھے لکھے لوگ سرخوں کو ” بائیں بازو ” اور سبزوں کو "دائیں بازو” والا بھی کہتے ہیں۔ زیاہ پڑھے لکھے انہیں "لیفٹ اور رائٹ” کے نام سے جانتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان کا قیام ” ووٹ کی طاقت ” کا نتیجہ تھا ۔ انگریز حکومت کے زیر اہتمام برصغیر میں ہونے والے آخری انتخابات نے ” قیام پاکستان ” پر مہر لگائی تھی مگر آج بظاہر ووٹ کی طاقت کا نعرہ لگانے والوں، جمہوریت کا جعلی راگ الاپنے والوں اور ہر وقت پاکستان کا "ماما” بننے والوں ” سرخوں اور سبزوں ” دونوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔

قائداعظم قانون پر عمل کرنے والے، انصاف پسند اور منافقت سے پاک انسان تھے ۔ ییچارے سرخے انہیں ” کھبا ” اور لاچار سبزے انہیں ” سجا ” ثابت کرنے کے لئے "شراب نماز کا زور” ( ایڑی چوٹی) کا زور لگاتے رہتے ہیں مگر پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ جناح کا اپنے نظریات میں ان سرخوں سبزوں، سجوں کھبوں، دائیں بائیں اور لیفٹ رائٹ والوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔

کہنا صرف یہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے غداری کا سرٹیفیکٹ پانےو الے90 فیصد ” سیاسی اور صحافتی نابغے” وہ ہیں جنہوں نے ” بھلے وقتوں” میں فوج کی ” ایجنٹی ” کی ہے۔ یہ بیچارے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے اور سوشل میڈیا پر ” ریٹنگ ” پانے کے لئے فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرکے ” غدارای” کا تمغہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ارے بھائی اب شور کیوں مچاتے ہواگر کوئی ” ایجنٹ ” اپنے ” گاڈ فادر ” کو ” ڈبل کراس ” کرے گا تو ایجنٹ ہی کہلائے گا نا!

ملک میں جب بھی "لیفٹ رائٹ” ( فوجی بوٹوں) کی آواز آئی ان "لیفٹ اور رائٹ” والوں نے "لیفٹ رائٹ” کرنا شروع کردیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ "لیفٹ” والوں نے اپنی پسند کے "لیفٹ رائٹ” کی ۤاواز پر "رائٹ” کہا جبکہ "رائٹ” والوں نے اپنی پسند کے "لیفٹ رائٹ” کی آواز کو "لیفٹ” نہیں کیا۔

سرخوں کے لئے 5 جولائی یوم سیاہ ہے اور سبزوں کے لئے یوم مردمومن،،، اسی طرح 12 اکتوبر سبزوں کے لئے یوم سیاہ ہے اور سرخوں کے لئے یوم روشن خیالی۔ بے چارے سرخوں اور لاچار سبزوں کو 12 اکتوبر اور 5 جولائی کو ایک ہی طرح ٹریٹ کرنا ہوگا۔ ورنہ جولائی اور اکتوبر تو ہر سال آتے ہیں رہیگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے