نون لیگ کا مستقبل؟

ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹرز، سینیٹ اور پنجاب اسمبلی کی سب سے بڑی اور قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے باوجود، مسلم لیگ (ن) پر جو اضمحلال طاری ہے، وہ کچھ زیادہ قابلِ فہم نہیں۔

اقتدار کے کھیل میں اتار چڑھاؤ کوئی انہونی بات نہیں۔ خود مسلم لیگ کو بھی پہلی بار اس صورت حال کا سامنا نہیں ہوا۔ نواز شریف صاحب کو عدالت موت کی سزا سنا چکی۔ جلا وطنی وہ دیکھ چکے۔ وزارت عظمیٰ سے پہلے بھی انہیں غیر سیاسی انداز میں محروم کیا گیا۔ سب کچھ کے باوصف، ایسی مردنی تو پہلے کبھی دکھائی نہیں دی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقعہ کوئی سونامی گزر گیا اور اب ساحل پر بربادی کے آثار کے سوا کچھ نہیں۔ کھلی آنکھوں سے دیکھا جاتا تو پھر سے عازمِ سفر ہونے کے لیے اثاثہ کچھ کم نہیں۔ سامانِ سفر موجود ہے، صرف تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے باوصف، یہ مایوسی کیوں ہے؟

میرے خیال میں ایک جوہری تبدیلی آئی ہے جس نے اُن لوگوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے‘ جو اس وقت جماعتی قیادت کے منصب پر فائز ہیں۔ وہ زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس بوجھ کے متحمل نہیں ہو سکتے جو ان کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ مقتدر قوتوں سے برسر پیکار ہونا، ان کے خمیر میں نہیں اور نواز شریف صاحب نے پارٹی کو اس آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ وہ اب نواز شریف صاحب سے اظہارِ لا تعلقی کر سکتے ہیں‘ اور نہ ان کے بیانیے سے وابستگی کا عملی مظاہرہ۔ وہ اقدار کی نہیں، سرِ دست تو اقتدار ہی کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔

اب ایسا نہیں ہے کہ تمام لوگ اسی خیال کے حامل ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی نظریاتی تربیت گاہوں سے گزر کر آئے ہیں اور نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ دیانت دارانہ وابستگی رکھتے ہیں۔ جو اس راہ کی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے ہیں اور اب بھی حو صلہ رکھتے ہیں کہ آبلہ پائی کے باوجود، اسی کانٹوں بھرے راستے پر قدم رکھیں۔ مسئلہ تو شہباز شریف صاحب کا ہے۔ بھائی کو کنویں میں دیکھ نہیں سکتے مگر نکالنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر بھی نہیں رکھ سکتے۔ انہیں کوئی تدبیر نہیں سوجھ رہی کہ وہ اس مخمصے سے کیسے نکلیں۔

ن لیگ کو اس عذاب سے ایک غائبانہ مدد نکال سکتی ہے: مریم نواز کی ضمانت۔ ان کے متحرک ہونے سے یقیناً پارٹی میں ایک اضطراب پیدا ہو گا، لیکن میرا خیال ہے کہ تادیر برقرار نہیں رہ سکے گا۔ شہباز شریف صاحب کو قیادت سے دست بردار ہونا پڑے گا یا ایک نئی جماعت وجود میں آئے گی۔ اسی میں دونوں کا فائدہ ہے۔ سیاسی جماعتیں حکمتِ عملی کے اختلاف کو تو کچھ دیرگوارا کر سکتی ہیں، فکری اختلاف کو نہیں۔ شہباز شریف صاحب تب ہی کھل کر سیاست کر سکیں گے‘ جب وہ اپنے اندازِ نظر کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ اس کے بعد وہ شب کی تاریکیوں میں ملاقاتیں کر سکیں گے‘ اور جہاں ضروری ہو گا، اپنی وفاداری کا یقین بھی دلا سکیں گے۔ اس طرح پورا امکان ہے کہ وہ ایک بار پھر امید سے ہو جائیں اور نئے سیاسی بندوبست میں ان کے لیے یا ان کی اولاد کے لیے جگہ پیدا ہو جائے۔

مریم نواز کے لیے یہ آسانی ہو جائے گی کہ وہ اپنی حکمتِ عملی کو اپنے بیانیے کے مطابق ڈھال سکیں۔ وہ اس راہ کی تلخیوں سے واقف ہیں اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس پر چلنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے ہم سفر بھی حوصلہ مند لوگ ہی ہوں گے۔ انہیں طویل مسافت کا سامنا ہو سکتا ہے مگر اس کی نتیجہ خیزی ملک و قوم کو ایک بھنور سے نکال سکتی ہے۔ یہ سارا تجزیہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ مریم نواز صاحبہ کی ضمانت ہو جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر نون لیگ کو شہباز شریف صاحب ہی کی قیادت میں بقا کی جنگ لڑنا ہے۔ ان کے لیے دو سوال اہم ہوں گے: نواز شریف صاحب کے بیانیے کو اپنا کر، وہ یہ جنگ کیسے لڑیں گے؟ نواز شریف بیانیے سے ہٹ کر، وہ اپنی بقا کو کیسے یقینی بنائیں گے؟

ن لیگ کو اگر بقا کی جنگ لڑنی ہے تو اسے اپنی قوت کو مجتمع رکھنا ہو گا۔ اس کے لیے نواز اور شہباز کے بیانیوں میں ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں۔ دو حصوں میں تقسیم سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے چند امور پر پارٹی سطح پر سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہو گی:

1۔ ن لیگ کو تدریجاً اپنی قیادت نئی نسل کو منتقل کرنا ہو گی۔ یہ وقت کا وہ جبر ہے، جس سے کوئی فرار نہیں۔ نواز شریف عصبیت کا عنوان رہیں گے‘ مگر اپنی صحت اور دیگر معاملات کے سبب وہ پارٹی کو عملی قیادت فراہم نہیں کر سکیں گے۔ صحت کی خرابی کے ساتھ، شہباز شریف اپنی سیاسی قیادت کا عملی ثبوت فراہم نہیں کر سکے۔ وقت نے اپنا فیصلہ مریم نواز کے حق میں دے دیا ہے۔ شریف خاندان کو اب اسے قبول کرنا ہو گا۔ اگر وہ اس کو مان لیں تو مستقبل میں مریم اور حمزہ میں وہ تعلق قائم ہو سکتا ہے جو نواز شریف اور شہباز شریف میں تھا۔

2۔ نو ن لیگ کا بیانیہ وہی ہو سکتا ہے جو نواز شریف کا ہے۔ اسی پر انہیں ووٹ ملے اور یہی ان کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔ اگر حسبِ توقع معاملات آگے بڑھتے ہیں‘ اور عمران خان ایک خود مختار وزیر اعظم کا تاثر نہیں دے سکتے تو پھر اس بیانیے کو مزید تقویت ملے گی۔

3۔ ن لیگ کو یہ بیانیہ اس طرح آگے نہیں بڑھانا کہ بطور اپوزیشن تحریکِ انصاف کی گزشتہ پانچ سالہ تاریخ کا احیا ہو جائے۔ اس نظام اور اداروں کو غیر مستحکم کیے بغیر اسے اپنے موقف کا ابلاغ کرنا ہے۔ اس کے لیے ن لیگ کو پارلیمنٹ میں سنجیدہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسے ذرائع ابلاغ کی مکمل آزادی کے لیے ان اداروں میں موثر آواز اٹھانا ہو گی۔ مشاہد حسین سید جیسے لوگوں کو اب ایسی حکمتِ عملی کی تشکیل کے لیے بروئے کار آنا ہو گا۔

4۔ دھرنے وغیرہ کی سیاست کو اب الوداع کہہ دینا چاہیے؛ تاہم اپوزیشن یہ حق محفوظ رکھتی ہے کہ وہ جلسے کرے اور نا انصافی کے خلاف پُرامن احتجاج کرے۔ یہ احتجاج ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عوامی زندگی متاثر ہو۔

5۔ سب سے اہم ن لیگ کو ایک سیاسی جماعت بنانا ہے۔ اس پہلو سے ہمیشہ مجرمانہ غفلت برتی گئی۔ اچھی اور جمہوری طرز کی سیاسی جماعتیں مستحکم سیاسی نظام کی اساس ہوتی ہیں۔ نواز شریف دیگر سیاست دانوں کی طرح، پاکستان کو ایک اچھی سیاسی جماعت دینے میں ناکام ہوئے۔ پارلیمنٹ کی مخصوص نشستوں پر جس طرح ایک خاندان کے دو دو‘ تین تین افراد کو نوازا گیا، وہ ظاہر کرتا ہے کہ آج بھی شریف خاندان کو سیاسی جماعت بنانے سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ یہ خاندان ذاتی وفادار اور خدام کو جمع کرنے کے شوق سے دست بردار نہیں ہوا۔ نواز شریف کا بیانیہ جس طرح کے رجالِ کار چاہتا ہے، وہ ایک بڑی سوچ کا تقاضا کرتا ہے۔ ووٹ کی عزت کے تصور کو پہلے پارٹی کے نظم میں قبول کرنا ہو گا۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موثر احتجاج کے لیے بھی پارٹی کا منظم اور سرگرمیوں کا باہم مربوط ہونا ضروری ہے۔

6۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ایک باوقار اتحاد ہونا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے مفادات پر الجھنے کے بجائے، ساری توجہ بیانیے کے ابلاغ پر مرتکز کرنی چاہیے۔ نون لیگ کی کامیابی یہ ہے کہ دیگر جماعتیں اس کے بیانیے کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ جیل اور عدالت کے ایوانوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی سچی تصویر لوگوں کے سامنے آنی چاہیے۔ اس کے لیے سب سے موثر فورم پارلیمنٹ ہو گا۔

ن لیگ کی قیادت کو سوچنا ہو گا کہ اسے ایک طویل سفر درپیش ہے۔ فی الوقت حالات اس کے لیے سازگار نہیں لیکن اس کے پاس زادِ راہ موجود ہے۔ ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹ معمولی اثاثہ نہیں۔ یہ نون لیگ کی قیادت کا کام ہے کہ ان کی امیدوں کو زندہ رکھے اور اس تاثر کو زائل نہ ہونے دے کہ وہ ملک کو متبادل قیادت فراہم کر سکتی ہے۔ یک سوئی آج اس کی پہلی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے