موت کی جانب بڑھتا ہوا پاکستانی میڈیا

میڈیا زندگی و موت کے دوراہے پر کھڑا ہے ، میڈیا کو اعتماد کا مسئلہ بھی درپیش ہے اور رزق کا بھی ، اعتماد بحال کرتا ہے تو روٹی سے جاتا ہے اور روٹی کو ہی مقصود بناتا ہے تو پھر اعتماد سے جاتا ہے ، میڈیا دباؤ کا شکار ہے ، صحافیوں کے کالم نہیں چھاپے جا رہے ، قومی سطح کے لیڈروں کے انٹرویوز نشر نہیں ہو رہے ، زبان بندیاں جاری ہیں ، سوالات تو بہت ہیں مگر تین سوالات اٹھاتے ہیں ، یہ نوبت آئی کیسے ؟ اسباب کیا ہیں ؟ نتیجہ کیا نکلے گا ؟

ایک وقت تھا جب حکومتیں صحافیوں سے ڈرا کرتی تھیں ، حکومتوں کو آزاد صحافیوں سے خوف ہوتا تھا ، حکومتیں جانتی تھیں کہ صحافی کے قلم سے نکلنے والا ایک جملہ اسکے خلاف آگ کا سبب بن سکتا ہے ، لوگ حکومتوں کے خلاف سڑکوں پر نکل سکتے ہیں ، صحافی کا لکھا ہوا ہماری تباہی کا سبب بن سکتا ہے ،حکومتوں کی کوشش ہوتی تھی کہ صحافیوں کو راضی رکھا جائے مگر صحافی پیٹ پر پتھر باندھ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرتا تھا ، وہ حکومتوں کی مدح سرائی نہیں کرتا تھا ، وہ پلاٹ نہیں لیتا تھا ، وہ حج و عمرے نہیں کرتا تھا ، وہ تعلقات سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتا تھا ، اسے علم ہوتا تھا جس دن میں نے حکومتوں کے نغمے گانے شروع کر دیے اس دن میرا اعتماد ختم ہو جائے ، عوام حکمرانوں کی بات پر اعتماد نہیں کرتی اسے اپنے صحافی کی بات پر اعتماد ہوتا ہے ، حکومتوں نے اس اعتماد کو توڑنے کے لیے صحافیوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کیا ، پلاٹ دیے ، پی ٹی وی کے عہدے دے ، گاڑیاں دیں ، شاموں کو ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھا دیا ، پینے پلانے کی رسم شروع کر دی ، یوں عوام کا صحافی حکومتوں کا ترجمان بن گیا ، وہ شاہوں کے قصیدے لکھنے لگا ، اسے درباری ہونا اعزاز لگا ، وہ اپنا فن حکومتوں پر وارنے لگا ، پہلی غلطی صحافیوں نے خود کی ، مگر ایسے لوگ تھوڑے تھے ، یہ تالاب کی گندی مچھلیاں انگلیوں پر گنی جا سکتی تھیں ، انہیں صحافیوں کی نظر میں بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا ، یہ حکومتوں کے درباری ہونے کو فخر سے بیان نہیں کر سکتے تھے ، یہ سر جھکا کر چلتے تھے ، انکی آنکھ اپنے سامنے بھی جھکی ہوتی تھی ، یہ آٹے میں نمک کے برابر تھے ،

پھر بات آگے بڑھی اور سیٹھ میدان میں کود پڑے ، جس کے پاس پیسہ تھا اس نے اخبار اور چینل کھول لیا ، جس پر کیس تھے اس نے بچاو کے لیے میڈیا کا سہارا لے لیا ،سیٹھوں نے قلم اور کیمرہ اپنے جرائم چھپانے کے لیے استعمال کروانا شروع کر دیا ، پہلے صحافی حکومتوں سے پلاٹ وغیرہ لے لیتے تھے اب سیٹھوں کی پرکشش تنخواہوں سے آزادی پر سمجھوتہ کر بیٹھے ، میڈیا کا مالک صحافی نہیں سیٹھ بن گیا ، میڈیا انڈسٹری ان لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی جن کا مقصد صحافت بچانا نہیں پیسہ کمانا اور اشتہار لینا تھا ، سیٹھ اگر نون لیگ کیساتھ ہے تو صحافی نون لیگ کیساتھ ہے ، سیٹھ اگر پی ٹی آئی کیساتھ ہے تو صحافی پی ٹی آئی کیساتھ ہے ، اس کشمکش کے نتیجے میں صحافی پھر مر گیا ، صحافتی اصول گہری کھائی میں دب گئے ، اور اب کافی مدت سے یہ تماشا جاری ہے ، اب صحافیوں اور چینلز کی پہچان پارٹی ترجمان کے طور پر ہوتی ہے صحافیوں کے طور پر نہیں ،

سنئیر صحافی حامد میر پر جب حملہ ہوا تو میڈیا تقسیم کا شکار نظر آیا ، میڈیا میں دراڑیں پڑ چکی تھیں ، میڈیا ایک دوسرے کے خلاف کھڑا ہو گیا ، یہ تقسیم اتنی گہری ہوئی کہ آج تک اسکے اثرات معاشرے پر دیکھے جا سکتے ہیں ، میڈیا اس وقت تھوڑا جھکا تھا اب مکمل جھک چکا ہے ، اب مکمل سر تسلیم خم کر چکا ہے ، اب آزادی اظہار رائے کہنا بھی لا یعنی سی مشق ہو گئی ہے ، اب اشارہ ہوتا ہے تو تعمیل شروع ہو جاتی ہے ، کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی ،کلمہ حق ماضی کا حصہ بن چکا ہے ، جرات مندی کتابوں میں رہ گئی ہے، اب ہم ماضی کے فسانے سنانے لگ گئے ہیں ، اب سبھی کو جان کے لالے پڑے ہیں ، سبھی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، پیسہ جب سامنے ہو تو کون خطرہ لیتا ہے ؟ کوڑے کھانے والے دن ہوا ہوئے ، اب صحافی کنارے پر کھڑے ہو کر تماشا دیکھ رہے ہیں ، یہ انتہائی افسوسناک عمل ہے ، اسکا نتیجہ انتہائی خوفناک نکلے گا ، جس طرح میڈیا پر انٹرویوز نشر نہیں ہونے دیے جا رہے یا کالم نہیں چھاپے جا رہے اس سے میڈیا پر اعتماد کی رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی، پاکستانی میڈیا دیکھنے والا بندہ جب یہ سوچے گا کہ یہاں تو مرضی کے خلاف کچھ شائع نہیں ہو سکتا تو پھر وہ مغربی میڈیا کی طرف جائے گا ، وہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ کا سہارا لے گا ، اسکے پاس اصل خبر جاننے کا ذریعہ صرف مغربی میڈیا ہی بچے گا ، اپنی عوام کو اپنے صحافی اور اپنے میڈیا سے بدظن کر کے مغربی میڈیا کے ہاتھ میں دینا کونسی سمجھداری ہے ؟ یہ بھلا ملک کی خدمت ہے ؟ گفتگو کی اتنی تو اجازت ہونی چاہیے کہ میڈیا پر عوام کا اعتماد بحال رہے ، ہاں اگر میڈیا کی موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر ٹھیک ہے ، اگر میڈیا کو زندہ رکھنا ہے تو پھر اسے تنقید کا حق دینا ہو گا اور صحافیوں کو یہ حق لینا ہو گا ، قومی سطح کے لیڈروں کے انٹرویوز اور پریس کانفرنسز پر پاپندی ختم کرنی ہو گی ، میڈیا نامناسب بات شائع نہیں کرتا ، وہ پیمرا کے اصولوں کو دیکھتا ہے ، میڈیا میں بیٹھے لوگ یہ بھی طے کرتے ہیں کہ کون سی بات عوام تک پہنچانی چاہئے اور کونسی نہیں ؟ جب مکمل کالم رد کر دیا جائے یا مکمل انٹرویوز بند کر دیے جائیں تو پھر قائدین سوشل میڈیا کی طرف رخ کرتے ہیں، اب قائدین سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں وہ اشاروں کنایوں میں بات کرنے کے بجائے کھل کر اپنا موقف دے رہے ہیں ، اگر قومی قائدین الیکٹرانک میڈیا کو چھوڑ کر سوشل میڈیا کی طرف آ رہے ہیں تو پھر اسکرینوں پر امان اللہ خان کی جگتیں قوم کو سنائی جائیں ، کیا میڈیا کو اندازہ ہے کہ وہ کس جانب جا رہا ہے ؟ میڈیا کو خود بھی اس صورتحال کی طرف توجہ دینی چاہیے ، میڈیا اپنا اعتماد بحال نہیں کرواتا تو پھر اسکی موت طے ہے _

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے