مولانا زاہد الراشدی کے مولانا فضل الرحمان کو تین مشورے

چیچہ وطنی کے ڈاکٹر محمد اعظم چیمہ ہمارے پرانے جماعتی، مسلکی اور نظریاتی ساتھیوں میں سے ہیں، حالات کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھتے ہیں اور مختلف حوالوں سے اپنے جذبات کا متعلقہ حضرات کے سامنے اظہار کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز ان کے ساتھ اسلام آباد کا سفر ہوا اور مولانا فضل الرحمان سے تفصیلی ملاقات ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب کو مولانا کی سیاسی پالیسیوں کے حوالہ سے کچھ تحفظات تھے اور میں موجودہ حالات کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہونے کے باوجود انہیں مولانا فضل الرحمان سے ان کے لہجے میں سننا چاہتا تھا۔ ہم دونوں کا تاثر یہ تھا کہ قومی سیاست میں مولانا کو تنہا کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے جسے بتدریج آگے بڑھایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف مذہبی اور سیاسی حلقوں میں چھوٹے بڑے مورچے تلاش کر کے اور بعض جگہ نئے مورچے تراش کر انہیں ان کی ضروریات فراہم کی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر قومی میڈیا کے سب راستے مولانا فضل الرحمان پر بند کر کے سوشل میڈیا پر بپا طوفان بدتمیزی کے دائرے کو دھیرے دھیرے بڑھایا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر اعظم چیمہ صاحب کو مولانا سے ان کے لہجے کی تلخی کی شکایت تھی جبکہ میری شکایت یہ تھی کہ متحدہ مجلس عمل کو بہت زیادہ تاخیر کے ساتھ میدان میں اتارا گیا، کسی ہوم ورک، فیلڈ ورک اور انتخابی پلاننگ کے بغیر عین وقت پر اکثر مقامات میں نامانوس امیدوار میدان میں اترے اور پرانے تجربہ کار کھلاڑیوں سے مار کھا گئے۔ مولانا فضل الرحمان کے لہجے کی تلخی اور شدت ملک بھر میں بہت سے دیگر دوستوں نے بھی محسوس کی ہے مگر ان حضرات کے لیے جو جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے بارے میں مولانا مفتی محمودؒ کے لہجے کی تلخی اور شدت سے آگاہ ہیں اور مجھ سمیت جن لوگوں نے مفتی صاحبؒ کی جنرل صاحب کے خلاف تقریریں سن رکھی ہیں ان کے لیے یہ بات نئی نہیں ہے۔ مفتی صاحبؒ جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کا نام لے کر ان پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے تھے تو ہم اردگرد کے کچھ لوگ ان سے درخواست کیا کرتے تھے کہ حضرت! ’’ہاتھ ہولا رکھیں‘‘ مگر وہ کسی کی نہیں سنتے تھے اور ہم اپنے تحفظات کے باوجود بطور کارکن ان کے ساتھ متحرک رہتے تھے۔ لیکن آج صورتحال اس لحاظ سے مختلف ہے کہ آج کے کارکن اختلاف رائے اور تحفظات کے باوجود کے ساتھ رہنے اور رفتار کم نہ کرنے کے ذوق و حوصلہ کے حوالہ سے پہلی کیفیت و ماحول سے مانوس نظر نہیں آرہے۔

بہرحال اس تناظر میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہماری کم و بیش تین گھنٹے تک بات چیت ہوئی جس کا خلاصہ دو باتیں تھیں۔ ایک یہ کہ قومی سیاست میں مولانا کو تنہا کرنے کی کوشش ملک بھر کے نظریاتی اور شعوری کارکنوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور وہ سب گہری نظر کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مولانا فضل الرحمان کو مشاورت کا دائرہ وسیع رکھنا چاہیے اور مختلف حلقوں اور طبقوں میں اپنے خیر خواہوں اور ہمدردوں کو تلاش کر کے ان کے ساتھ رابطہ و مشاورت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مولانا نے دونوں باتوں سے اتفاق کیا۔ میں نے تین امور کی طرف مولانا کو بطور خاص توجہ دلائی۔

ایک یہ کہ قومی سیاست میں نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے کردار کی بحالی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ نواب صاحب مرحوم قومی سیاست میں خلا محسوس نہیں ہونے دیتے تھے اور کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے، ان کا سیاسی ڈیرہ ہر وقت آباد رہتا تھا، حقہ چلتا رہتا تھا، کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی بھی کارکن کسی حجاب اور پروٹوکول کے بغیر وہاں آسکتا تھا اور اسے راہنمائی کے ساتھ حوصلہ بھی ملتا تھا۔ ہمارے بہت سے مسائل اور الجھنیں اس ڈیرے کی ویرانی کے پیدا کردہ ہیں، مجھے نوابزادہ صاحب کے ساتھ ان کی ٹیم میں سالہا سال کام کرنے کا موقع ملا ہے اس لیے یہ خلا میرے جیسے کارکنوں کو زیادہ محسوس ہوتا ہے۔

دوسری گزارش یہ تھی کہ جمعیۃ علماء اسلام سے وابستہ علماء کرام، کارکنوں اور خیر خواہوں کی ذہن سازی، فکری تربیت اور باہمی ربط و تعاون کی فضا ختم ہو کر رہ گئی ہے جسے زیرو پوائنٹ سے دوبارہ شروع کرنا ہوگا، بتدریج آگے بڑھانا ہوگا اور صبر و تحمل کے ساتھ اسے مسلسل جاری رکھنا ہوگا تاکہ کم از کم ہم نصف صدی قبل کا ماحول ہی واپس لا سکیں۔

جبکہ تیسری گزارش یہ کی کہ دیگر مسالک، طبقات اور حلقوں کے ساتھ رابطوں کا نظام بھی نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ جماعتوں کی سطح پر رابطے اپنی جگہ ضروری ہیں مگر جماعتی دائروں سے ہٹ کر شخصی سطح پر رابطوں اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لینے اور اعتماد میں رکھنے کا ماحول بھی بہت ضروری ہے۔ ملک کا کوئی ایسا طبقہ، گروہ، مسلک اور جماعت نہیں ہے جس میں ہمارے ہم خیال اور ہم مزاج افراد موجود نہ ہوں اور دینی اور قومی ایجنڈے میں کسی نہ کسی سطح پر کام نہ دے سکتے ہوں۔ مگر ہم پروٹوکول کی ترجیحات اور سہل انگاری کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اس قسم کے کام اب ہمیں اپنی ضروریات اور ذمہ داریوں سے باہر کے کام محسوس ہوتے ہیں۔

ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمان کے فرزند مولانا اسعد محمود اور دیگر نومنتخب ارکان قومی اسمبلی مولانا عبد الواسع اور مولانا صلاح الدین بھی آگئے اور گفتگو میں شریک ہوئے۔ عزیزم مولانا اسعد محمود کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ وہ باصلاحیت اور باذوق نوجوان ہیں، ان کی کامیابی اور حلف برداری کی خبریں سن کر میری زبان سے پہلا جملہ یہی نکلا تھا کہ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائیں، نظر بد سے بچائیں اور خاندان و جماعت کی عزتوں میں اضافہ کا ذریعہ بنائیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ نوجوان آگے بڑھے گا اور اپنے بزرگوں کی روایات کو آگے بڑھائے گا، اللہ تعالیٰ توفیق و موقع سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

بہت سی اور باتیں بھی کرنے کی ہیں مگر ابھی اس کا موقع نہیں ہے، قومی اور صوبائی سطح پر انتخاب کے پارلیمانی مراحل مکمل ہونے کے بعد ملاقات و مشاورت کا ایک دور اور ہوگا جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی کے ساتھ بھی اسلام آباد میں قومی و دینی جدوجہد کے حوالہ سے ایک وسیع مشاورت اور سیمینار کے اہتمام کے بارے میں مشاورت چل رہی ہے جس کے پروگرام کا اعلان عید الاضحٰی کے فورًا بعد کر دیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے