پٹواری

لفظ ‘پٹواری’ آج کل بہت مقبول ہو چکا ہے۔ میری ناقص سمجھ کے مطابق ‘Slang Urdu’ میں لفظ ‘پٹواری’ ہر اس شخص کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے جو خود کو اپنی سوچ اور بات سے ان پڑھ اور جاہل ثابت کرے۔ نیز ‘پٹواری’ اپنے سیاسی لیڈر کے ہر بیان اور کام کو صدق دل سے صحیح سمجھتے ہیں اور پرچار بھی کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی خدا نا خواستہ ان کے لیڈر پر مثبت یا منفی تنقید کر بیٹھے تو بس پھر سمجھیں اسکی ماں بہن ایک کر دیتے یہ ‘پٹواری’ حضرات۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں 8 سال کا تھا تو ہمارے اسکول میں عمران خان صاحب تشریف لائے۔ اس وقت وہ نئے نئے کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوے تھے اور  شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیئے فنڈ اکھٹا کر رہے تھے۔ عمران خان صاحب اپنے سپورٹس کریئر کے آغاز سے ہی ہر پاکستانی کو دلدادہ تھے۔ اسکی ایک وجہ پاکستان میں کرکٹ کے شائقین کی بہت بڑی تعداد اور دوسری اگر میں ایسا کہوں کہ عمران خان صاحب کرکٹ کی تاریخ کے میں ایک پرفیکٹ کھلاڑی رہے تو غلط نہیں۔ اور ریٹائرمینٹ کے فورا بعد ایک ایسے کام کے لیئے کمر باندھی کے اور بھی سراہے گئے۔ وہ ہمیشہ ہی پاکستان میں کرکٹ کے شائقین اور کھیلنے والوں کے لیئے آئیڈیل رہے۔ میرے بھی وہ یقینا آئیڈیل تھے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں فنڈز کی کولیکشن کے لیئے وہ اسکولوں میں اپنی تصویر اور آٹوگراف والے پوسٹرز بیچتے ہوتے تھے۔ میں نے بھی اپنے والدین سے بضد ہو کر ایک عدد پوسٹر خریدا تھا اور بعدازاں اپنے کمرے کے اندرونی دروازے پہ چسپاں کیا تھا۔

پھر 25 اپریل 1996 کو عمران خان صاحب نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور عام عوام کے لیئے انصاف کی آواز بلند کرتے ہوے سیاست میں باقائدہ قدم رکھا اور ایک انتہائی مشکل اور کٹھن سفر کا آغاز کیا۔ چونکہ پاکستان میں سیاست صرف سرمایہ کاروں اور وڈیروں کی جاگیر رہی اور عمران خان صاحب کے ساتھ زیادہ تر پڑھے لکھے اور شریف النفس لوگ ہوا کرتے تھے سو 2013 تک تو انکو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ پھر انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوے الیکٹیبلز، سرمایہ کار اور پرانے منجھے ہوئے سیاستدان بھی اپنی پارٹی میں شامل کیئے۔ جس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ خان صاحب کو اس وقت تک لگ پتا گیا تھا کہ اسکے بغیر حکومت نہیں بن سکتی. بعدازاں 2018 کے الیکشن میں یہ بات درست بھی ثابت ہوگئی۔

اگر میں یہ کہوں کہ عمران خان قائداعظم کے بعد وہ واحد لیڈر ہیں جنہوں نے اس قوم کے جوانوں کو بغیر کسی بڑے نقصان کے بیدار کیا اور کرپشن اور کرپٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کروائی تو کوئی غلط بات نہیں ہوگی۔ ہاں البتہ بھٹو صاحب نے بھی جوانوں کو بیدار تو کیا تھا مگر بدلے میں مشرقی پاکستان کے جوانوں کو سونا پڑا تھا۔ میری سمجھ کے مطابق عمران خان صاحب نے جوانوں کے اندر 2 بڑی مثبت تبدیلیاں لائیں۔ ایک یہ کہ جوانوں میں سیاسی شعور پیدا کیا اور دوسرا ظلم کے خلاف آواز اٹھانا سکھایا۔ یہ لفظ ‘پٹواری’ ‘Slang Urdu’ والا بھی عمران خان صاحب کے پارٹی ورکرز کی ایجاد ہے اور اسکا سب سے زیادہ استعمال بھی پی ٹی آئی کے کارکنان ہی کرتے ہیں۔ اور عام طور پر لفظ ‘پٹواری’ مسلم لیگ ن کے مقلدین کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 

میں نے دیکھا ہے کہ خان صاحب کے جو بھی ‘نظریاتی کارکن’ ہیں ان میں ایک بڑی عمدہ خوبی پائی جاتی ہے کہ جس کو جتنا سراہا جائے وہ کم ہے، اور وہ یہ ہے کہ انکے نظریاتی کارکن بلکل بھی شخصیت پرست نہیں ہیں اور وہ غلط عمل کو پورے زور و شور کے ساتھ غلط کہتے ہیں چاہے وہ غلط عمل کیوں نا پارٹی کے کسی سینیئر رہنما یا پھر عمران خان صاحب سے ہی سرزد کیوں نا ہوا ہو۔ اس کی مثال حال ہی کے واقعات میں ملتی ہے جب پی ٹی آئی کے ایک MPA عمران علی شاہ نے ایک شہری کو اپنے تشدد کا شکار کیا اور پھر پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں نے اسکو سوشل میڈیا پہ بہترین طریقے سے رگڑا لگا دیا جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی ڈسپلنری کمیٹی کو فوری نوٹس لینا پڑا۔ اس کی ایک اور مثال بھی حال ہی میں ملتی ہے جب پی ٹی آئی کے اپنے ہی کارکنوں نے وزیر اعلی پنجاب کی نامزدگی کے خلاف آواز بلند کی۔ بحیثیت استاد مجھے اپنی قوم کے نوجوانوں کے ایسے مثبت اور ‘غیر پٹوارانہ’ رویے کو دیکھ کر خوشی اور فخر محسوس ہوتا ہے۔

اب آ جاتے ہیں پی ٹی آئی کے ان کارکنان اور ورکرز کی طرف جو شاید کسی نظریے کی وجہ سے اس پارٹی کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ کسی ذاتی مفاد کی وجہ سے ہیں یا پھر شخصیت پرستی کا شکار ہیں اور یا پھر کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہیں۔ ان کی باتیں یا حرکتیں کسی بھی ‘پٹواری’ سے کم نہیں ہیں۔ اگر ان کے سامنے کہیں کبھی کوئی پی ٹی آئی کی کسی غلط پالیسی یا ایکشن کی نشاندہی کرائی جائے تو فورا گالم گلوچ پے آ جاتے ہیں یا پھر فورا سے کہنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں پارٹی نے بھی یہ کیا فلاں پارٹی نے بھی یہ کیا۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی بچہ اسکول کے امتحانات میں فیل ہو جائے اور اسکا باپ اس سے نتیجے کے متعلق پوچھے تو آگے سے کہے کے ابو وہ ڈاکٹر صاحب کا بچہ فیل ہو گیا ہے، باپ کہے اچھا اسکو چھوڑو یہ بتاؤ تمہارا نتیجہ کیسا رہا تو وہ آگے سے پھر کہے کے ابو وکیل انکل کا بیٹا بھی فیل ہو گیا ہے۔ ارے بھئ تم سے تمہارا نتیجہ پوچھا گیا تم اپنا بتاؤ دوسرے تیسرے کے بیٹے کو چھوڑو۔ مگر بےسود۔۔۔

میں پی ٹی آئی کے اپنے ان ‘پٹواری’ بھائیوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جن و انس میں مکمل بُرا صرف و صرف ابلیس ہے اور پرفیکشن کے درجات پہ صرف و صرف انبیاء کرام علیہ السلام فائز رہے ہیں۔ اس ک علاوہ انسانی طبیعت کے اندر اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اور وہ کبھی اچھے اور کبھی برے کاموں کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔ سو خان صاحب سے کوئی غلطی کوتاہی ہو جانا کوئی غیر فطری عمل نہیں ہے بلکہ یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ خان صاحب انسانیت کے دائرے میں ہی ہیں۔ اُن پر اگر کوئی ان کی کسی غلط بات، پالیسی یا فیصلے کی وجہ سے کوئی تنقید کر لے تو اس میں کیا ہے؟ کیا تنقید انبیاء پہ نہیں کی گئی یا آپ اپنے لیڈر کو نعوزباللہ انبیاء سے اوپر سمجھتے ہیں؟؟؟ میرے بھائیو انسان کو انسان کے مرتبے پر ہی فائز سمجھا جائے تو اسی میں ہماری فلاح ہے۔ اگلے سے غلطی اور کوتاہی کی امید بھی رکھو اور اس کی اصلاح کے لیئے بھی آواز اٹھاؤ، اور جب اصلاح ہو جائے اور اللہ اسے معاف کر دے تو آپ بھی برائے کرم اسے بخش دیں۔ کسی انسان کے فرشتہ بننے کی امید نا رکھو اور نا ہی کسی انسان کو ابلیس سمجھو۔ شدت پسندی اور شخصیت پسندی جیسی معاشرتی برائیوں سے دور رہیں ورنہ آپ کے اندر خیر و شر کا شعور ختم ہو جائے گا اور آپ خیر کو شر اور شر کو خیر میں ملاتے پھریں گے اور یہی خصلت آپکی رگوں میں دوڑتے ہوئے آپ کی آنے والی نسلوں کو بھی تباہ کر دے گی۔۔۔

وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

پی ٹی آئی کے کارکن، سوشل ایکٹیوسٹ، اور پیروکار تو اس لحاظ سے بھی بہت خوش نصیب ہیں کہ ان کا لیڈر کہتا کہ احتساب سب کا ہو گا اور یہ مجھ سے شروع ہونا چاہیئے، اور یہ یقینا ایک لیڈر کے عقل مند اور نیک نیت ہونے کا ثبوت ہے کہ وہ خود کو انسان سمجھتے ہوئے خطا کا پتلا سمجھتا ہے اور اصلاح کا خواہشمند ہے، اور چاھتا ہے کہ جہاں اس سے خطا ہو اسکی اصلاح کی جائے تاکہ وہ اپنی اور آپکی فلاح کر پائے نا کہ اُسکی اُس طرح تقلید کی جائے جیسے پٹواری اپنے لیڈر کی کرتے ہیں۔ یہی تو فرق ہے خان میں اور باقیوں میں جس کی وجہ سے اللہ نے اس کو آج یہ عزت بخشی۔ 

آخر میں بس یہی کہوں گا کہ خدا کرے میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو۔۔۔آمین یا رب العالمین!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے