عمران خان کا نیا معاہدہ عمرانی

سمجھ نہیں آتا کہ خوشی سے سرشار قوم کے ساتھ جشن مناوٗں یا جلنے والوں کی بدباطنی کی دھائی دوں۔دل سے جوبات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگررکھتی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے تقریر کیا کی 22کروڑ عوام کے جذبوں کو زباں دے دی۔ قوم میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ایسا محسوس ہوا کہ عوام کے دکھ درد کو سمجھنے والا، انہیں جاننے والا اور ان کا درد محسوس کرتے ہوئے معاملات کو ٹھیک کرنے والا کوئی حکمران ،ان کا اپنا حکمران آگیا ہے۔

عمران خان کی تقریر کو ہر ایک اپنے زاویے سے دیکھے گا۔میرے خیال میں عمران نے ایک نئے معاہدہ عمرانی کی بات کی ہے۔عقائد کے تحفظ سے لے کر بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی، عوام کو انصاف دلانے سے لے کر ضروریات زندگی کی ضمانت تک، حق رائے دہی کا تحفظ ہو یا اقدار کی پاسداری، ہمارے نئے وزیراعظم کی تقریر میں ان تمام چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے بلکہ ان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے پورے پروگرام کا عملی نقشہ پیش کر دیا ہے۔

حکمرانوں کی ڈسی ہوئی اس قوم کو ایک نئے حکمران نے دلاسا دیا ہے، امید کی جوت جگا دی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کی ہمارے نئے حکمران کے نہ صرف سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل ہے بلکہ اس نے ابن خلدون سمیت تمام ان مفکرین کوبھی پڑھ رکھا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ ریاست کے وجود کی ضمانت اس کے شہریوں کو بے لاگ انصاف کی فراہمی ہے جس کے بغیر ریاست خطرہ میں ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کی حالیہ چند دھائیوں میں ہمارے حکمرانوں نے جس طرح کے سفاکانہ طریقہ پر حکمرانی کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کا ریاست پر اعتماد ہی متزلزل ہو گیا۔

ایک طویل عرصہ بعد ایسا لگا کہ ہمارا کوئی اپنا کرسی پر پہنچ گیا ہے اور ہماری بات کر رہا ہے۔ اسے معلوم ہے کی گلی محلے کے مسائل کیا ہیں زندگی کی تلخیاں کون سی ہیں۔اور اسی کے مطابق اس نے پلان دیا ہے۔ اگر آج کے دور میں ملک کی کوئی سب سے بڑی خدمت ہو سکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کر دیا جائے۔ احساس ملکیت اور اپنائیت دیا جائے۔ اور عمران نے اپنی دو تقریروں میں ہی یہ کام کر دیا ہے۔ اب ہم دنیا میں فخر سے کہ سکتے ہیں کہ ہمارا حکمران ہمارا اپنا ہے، جسے ہمارے مسائل کا بھی پتہ ہے اور وہ انہیں حل کرنا بھی جانتا ہے۔ ابھی تو ایک لمبا سفر ہے اور یہ قوم اس طویل سفر کیلئے تیار ہے۔ نشان منزل ہو یا رستے کی کٹھن مشکلات، قائد مل جائے تو سفر آسان ہو جاتا ہے۔

افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ہمارا نیا وزیراعظم جب بھی ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے کچھ مخصوص طبقات کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ قوم کو بے یقینی اور شبہات کی دلدل میں دھکیلنے کی سازشیں کرنے لگتے ہیں۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کی یہ ملک یہ ریاست یہ آزادی یہ زندگی اس کی تمام خوشیاں یہ سب کچھ اسی ریاست مدینہ کے والیؐ کے طفیل ہے یہ سب اسیؐ کا صدقہ ہے اور اسیؐ پر قربان ہے۔

عمران تو پھر بھی ایک خوبصورت وجیہ باوقار شخص ہے اگرایک نکٹہ حبشی غلام بھی ریاست مدینہ کی بات کرے تو یہ پوری قوم اس کی اطاعت کرے گی کہ آقا ؐکا یہی حکم اور آقاؐ کی یہی خواہش ہے۔اپنے قیام کے فورا بعد ہی قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی نے آقا کی ناموس کی حفاظت کیلئے اپنی فوری قراردادوں کے ذریعہ جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ اس نئی پارلیمنٹ کی غیرت دینی کا ثبوت ہے جس کا سربراہ عمران خان ہے۔اور اگر وہ اس پاک وطن کو ریاست مدینہ کے ماڈل پر آگے لیجانا چاہتا ہے تو پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔اس قوم کا آئیڈیل بھی ریاست مدینہ ہے۔
اور اس نئے عمرانی معاہدہ کو روبہ عمل آنے سے پہلے ہی قوم نے نہایت خوش دلی سے سنا اور قبول کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے