اہل صفا اور لفافے صحافی

بعض اوقات کچھ نہ لکھنے کا بھی فیصلہ کریں تو یار لوگ ایسی ایسی درفتنیاں چھوڑتے ہیں کہ قلم کی دھار ازخود تیز ہو جاتی اور قرطاس کو سیاہ کرجاتی ہے۔خاکسار نے طویل عرصہ سے تمام مطبوعہ کالم پڑھنے کے جبر سے نجات حاصل کرلی تھی اسی لئے چیدہ چیدہ ہی نظر سے گذارنے کا معمول ہے اور اب عارضہ قلب کے بعد تو ویسے بھی ناتواں دلمیں اتنی ہمت نہیں بچی کہ روز اپنے کو سنگبار کروں۔اور بارہا کروں۔ چنانچہ صرف اساتذہ کرام کے فرمودات ہی دیکھتا ہوں۔ اور لفافیوں سے حتی المقدور دور رہتا ہوں۔

یہ وہی لفافئے ہیں جن کی بے غیرتی اور بے حمیتی کا کبھی ذکر کرتا تو الٹا ڈانٹ پڑجاتی تھی کی صحافت کی آن بان شان خطرہ میں پڑ گئی ہے۔آج رب کریم نے خلق کے دلوں پر یہ راز بھی کھول دئے کی کون اہل صفا ہے اور کون جالب مرحوم کے بقول مردود حرم۔خلق خود لفافئے پکارتی ہے۔ جو ساری زندگی زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنے کی تلقین کرتے رہے اب وہی لفافیئے کہلائے ہیں اب اسی اصول کے تحت انہیں مخلوق کی بات کو نقارہ خدا جان کر تسلیم کر نا پڑے گا۔

انہی میں سے کسی ایک نے جس کے پیٹ میں اسی مخلوق سے لوٹا ہوا کثیر مال بھرا ہوا ہے نا معلوم مجرم نوازشریف کی محبت میں یا عمران کے بغض میں یہ درفتنی چھوڑی کی موصوف وزیراعظم ہاوس کے اخراجات خود ادا کیا کرتے تھے۔ غالبا انہیں وزیراعظم عمران خان کے وزیراعظم ہاوس میں نہ رہنے کے فیصلے پر بے انتہا تکلیف ہے جس کی عوام میں از حدپذیرائی ہوئی اور جب عوام کو یہ بتایا گیا کہ اپنے کو مغل اعظم سمجھنے والے ان فرعونوں کے خدمتگار ہی 524اور زیر استعمال گاڑیاں 80تھیں تو ان کو عمران خان کے اس فیصلے کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔

ایک ابتدائی اندازہ تھا کی ۵ برس کا وزیراعظم ہاوس کا خرچہ پونے دو ارب روپے ہے جس میں عمران خان نے محض دو گاڑیاں اور دو ملازم رکھ کر اسے 98 فیصدکم کر دیا ہے۔ تاہم وفاقی میزانئے کے مطابق وزیر اعظم ہاوس کے اخراجات کیلئے 986ملین یعنی 98کروڑ 60لاکھ روپے رکھے گئے تھے جبکہ صرف وزیراعظم کے بیرونی دوروں کیلئے ایک ارب 89 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے ۔ جبکہ وزیراعظم آفس اور وزیراعظم کے براہ راست ماتحت اداروں کیلئے گرانٹ الگ سے رکھی گئی ہے۔ گویا صرف وزیراعظم ہاوس کا سالانہ خرچ تین ارب روپے کے قریب ہے۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کے جس چیک کی بنیاد پر یہ درفتنی چھوڑی گئی اس کا واحد مقصد عمران خان کے وزیراعظم ہاوس میں رہنے اور اخراجات میں بچت کے منفرد،غیرمعمولی اور قابل تعریف فیصلے کو غیر موثر کرنا تھا۔ اسی بنا پر پٹواریوں کے سوشل میڈیا برگیڈ نے طومار باندھ دیا کی ہمارا لیڈر سارا خرچہ خود اٹھاتا تھا۔ اب جیسے لفافیئے ویسے ہی پٹواری۔ خبر کی تحقیق اور حقائق کی تلاش تو صرف میرے جیسے چھوٹے صحافیوں کا کام ہے۔ ان کا فرمایا تو مستند اور پتھر پہ لکیر ہے چنانچہ انہیں تحقیق کی کیا ضرورت تھی انہیں تو شاید حق نمک ادا کرنا تھا سو کر دیا۔ اب عوام آپس میں سرپھٹول کرتی رہے کی ایسا نہیں تھا ایسا تھا۔

بھلا ہو جدید مواصلاتی نظام کا کہ ہر کاغذ بجلی کی رفتار سے سفر کرتا ہے اور سچ جھوٹ کھول دیتا ہے۔ یہ دو کاغذ مجھ تک بھی پہنچ گئے آپ نے بھی دیکھے ہوں گے۔ ایک تو سزا یافتہ مجرم کا 61لاکھ 54512روپے کا چیک 29اگست 2017کو جاری کیا گیا ہے۔جو وزارت عظمی سے معزولی کے ٹھیک ایک ماہ بعد جمع کرایا گیا تا کہ کسی مزید قانونی شکنجے میں نہ آ جائیں۔ یہ پیسہ کہاں سے آیا ؟ کیا اس پر ٹیکس ادا کیا گیا تھا؟ کیا اپنی سالانہ ٹیکس ریٹرن میں اس آمدن وخرچ کا ذکر کیا گیا ہے؟کیا اپنے اثاثوں کے گوشواروں میں اس کا کوئی حوالہ موجود ہے؟ انہیں ان تمام سوالوں کے جوب دینا ہوں گے بصورت دیگر یہ معاملہ ایک بار پھر سابق وزیر اعظم کے گلے پڑ جائے گا کیونکہ ہر چیزریکارڈ پر ہے۔

دوسرا کاغذ اس سے بھی دلچسپ ہے۔ جو وزیراعظم ہاوس کے اوایس ڈی محمد افضال کی جانب سے اس ادائیگی سے 20روز قبل جاری کیا گیا ہے جس میں صرف 4 اخراجات تاریخوں سمیت درج ہیں۔پہلا خرچ یکم مئی 2016 سے 9اگست2017تک قریبا پندرہ ماہ کے کھانوں کا بل ہے جس کی مالیت Rs. 5734123/=روپے ہے۔دوسرا بل Rs.297422/=روپے کا ہے جو مسجون نوازشریف کی نواسی ماہ نور کی سالگرہ کا ہے جو سرکاری خرچ پر 3مارچ 2015 کومنائی گئی اور جس کی ادائیگی ڈھائی سال بعد کی گئی۔ اور صرف یہی نہیں غالبا اسی روز صدقے کے 7بکرے بھی سرکاری رقم سے منگوائے گئے جس کی ادائیگیRs. 77000/= بھی نہایت سہولت سے کی گئی۔

اسی کاغذ کے مطابق حسین نواز کے کوئی مہمان 24مئی 2017 سے 14جون 2017 کے دوران سرکاری مہمان خانے میں رہے جن کے20دن کے کھانے کا بل Rs. 36967/=روپے قابل ادا تھا۔جن حضرات کو اس وزیراعظم ہاوس میں جانے کچھ لمحات گذارنے یا کچھ لذت کام دہن سے مستفید ہونے کا موقع ملا ہے کچھ وہی جانتے ہیں کہ بادشاہ وقت کے دربار کی کیا شان اور وہاں کی غذاوں کی کیا لذت ہے؟ 37 ہزار روپے میں کسی کو بھی 20یوم کیلئے یہ سہولت فراہم کر دیں وہ اسی روز نعرہ مستانی لگائے گا اور آپ کا مرید ہو جائے گا۔اب اس میں کیا راز ہے میرے علم میں نہیں کی یہ وہی تاریخیں ہیں جن میں اس سال کا وفاقی بجٹ منظور کیا گیا تھا۔اور جس روزبجٹ منظور ہوا اسی روز مہمان نے رخت سفر باندھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے