سلیم صافی ، صحافت اور کرپشن

سلیم صافی ، صحافت اور کرپشن

افغان انٹیلی جنس کا وہ سیل چار بائے آٹھ فٹ کا تھا ، اُن دنوں زندگی بہت بے رحم، بے رنگ اور بے مزہ تھی . ایک پل ایک گھنٹے میں گُزرتا تھا. اپریل کی گرمی میں جلال آباد میں واقع امنیت ملی کا یہ دفتر اور وہاں عقوبت خانہ جہنم بن جاتا کیونکہ ہم سارے قیدی پنکھے کے بغیر رہتے اور سیل میں چوبیس گھنٹے روشن پیلے بلب سے پورا ماحول زرد ہوچکا تھا ۔

https://www.youtube.com/watch?v=IzJHEbEHBFU

کبھی کبھار اونچے روشن دان سے کسی چڑیا کی آواز آتی جسے قیدی زندگی کی علامت سمجھتے ، ایسے میں جب کبھی بیت الخلاء کے استعمال کے لئیے ہمیں نکالا جاتا تو سامنے سیل کے دروازے میں لگی چھوٹی مگر پنجرے میں قید کھڑکی کے پیچھے کھڑے پشاور کے حکیم لالہ سے میں کہتا جب واپس جاؤ تو سلیم صافی یا رحیم اللہ یوسفزئی سے رابطہ ضرور کرنا ، میرا بتانا وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔

پندرہ روز اس جہنم میں گزارنے کے بعد میں لاپتہ سے معلوم شہری ہوچکا تھا اور ننگر ہار کے مرکزی جیل منتقل کردیا گیا وہاں تفصیلات ملیں کہ سب سے پہلے میری گمشدی کی اطلاع بھی سلیم صافی نے دی اور بعد ازاں انہوں نے حامد کرزائی سے بذریعہ کالم اپیل کی کہ مجھے رہا کیا جائے اس دوران اسلام آباد میں افغان سفیر سے رابطہ ہو کابل میں پاکستانی سفارت خانے یا پھر افغان پارلیمان کے اراکین سے، صافی صاحب ہر معاملے میں پیش پیش رہے یہ انکا وہ احسان ہے جس کا عمر بھر مقروض ہوں ۔

انہی دنوں پتہ چلا کہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کا دھرنا شروع ہوچکا ہے اور صافی صاحب سمیت تمام کی توجہ اُدھر زیادہ ہوچکی تھی ۔ ایسی ہی ایک سرمئی شام جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو کہنے لگے کہ ساری کوششیں کرلیں لیکن افغانی مان نہیں رہے انکے مطابق اے آروائی جس طرح افغان حکومت کے خلاف خبریں چلا رہا ہے اس سے وہ ناراض ہو رہے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ مجھے خود اس معاملے کو حل کرنے کے لئیے افغانستان آنا ہوگا لیکن جب تک دھرنا ہے ہم بری طرح پھنسے ہوئے ہیں ۔

صافی صاحب اور حامد میر صاحب اسلام آباد میں میرے لئیے صحافتی تنظیموں کے احتجاج میں بھی نکلے حالانکہ حامد میر صاحب قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شدید زخمی بھی تھے لیکن یہ انکی پہلی سرگرمی تھی جس میں شریک ہوئے ۔

سلیم صافی اور میرے درمیان کچھ اور بھی باتیں ہوئیں کچھ انکی غلط فہمی کچھ حالات کچھ انا اور کچھ شاید میری غلطیوں کے باعث ہمارے تعلقات سرد مہری کا ہی شکار ہیں (تفصیلات سے گریز ہے )

وطن واپسی پہ جب کتاب لکھی تو خواہش تھی کہ صافی صاحب کتاب کے لئیے کچھ لکھیں تاکہ اسے حصہ بنایا جاسکے لیکن کوشش کے باوجود نہ ہوسکا (الحمدلله کتاب کا دوسرا ایڈیشن آچکا ہے بس اب مارکیٹ میں لانا ہے کتاب میں حامد میر، وسعت اللہ خان، زبیر منصوری اور سبوخ سید کی آراء بھی شامل ہیں ) ۔

طویل تمہیدی مضمون کی ضرورت یوں پیش آئی کہ صافی صاحب آج کل تحریک انصاف کے "چیتوں” کی زد میں ہیں انکی نواز شریف سے متعلق خبر کے بعد مسلسل حملے ہو رہے ہیں مذاق اڑایا جارہا ہے اور وہ مشکل صورت حال سے گزر رہے ہیں ۔

ہر انسان کی طرح سلیم صافی میں کچھ شخصی کمزوریاں ہیں جنکی تفصیل کا وقت نہیں بس ہمیں اناء کے خول سے نکل کر اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے کہ یہی درست طرز عمل ہے باقی صافی صاحب نے خبر مکمل دستاویزی ثبوتوں کیساتھ دی ہے . حکومت تحریک انصاف کی ہے اسکے مصدقہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہوسکتا ہے. بے شک سلیم صافی نواز شریف سے کہیں زیادہ تنقید عمران خان پہ کرتے رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھی اب تھوڑا سا بڑا ہوجانا چاہیے . اب آپ اپوزيشن میں نہیں کہ ہر وقت ردعمل میں رہیں بلکہ حکومت ہونے کے سبب رویہ کو تبدیل کریں اور تنقید کو خندہ پیشانی سے سہنے کا ہنر پیدا کریں۔

صافی صاحب یا کوئی بھی صحافی خبر دے تو اسکی چھان پھٹک کے بعد ردعمل بنتا ہے مگر وہ بھی مہذب انداز میں ، نا کہ الزامات غلیظ گالم گلوچ سے رد عمل کا اظہار کیا جائے ۔

میرا اور صافی صاحب کا اتنا بھی تعلق نہیں کہ عید مبارک کے پیغام کا تبادلہ ہو، اسلام آباد جانے پہ بھی ملاقات نہیں ہوتی لیکن جس طرح انکے خلاف مہم شروع ہوئی وہ تکلیف دہ ہے جس پہ اپنی گزارشات آپکے سامنے رکھیں وہ کرپٹ نہیں لیکن ضدی ضرور ہیں ۔

کُلی طور پہ ان سے کبھی بھی اتفاق یا اختلاف نہیں رہا لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اختلاف بھی اعتدال کیساتھ کریں، اور اس مہم کو ختم کرکے مثبت انداز کو پروان چڑھائیں ۔۔۔۔۔
۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے