فاشزم کا ظہور؟

عمران خان وزیراعظم ہاؤس پہنچے‘ تو نوازشریف کے ذاتی مصارف کے بارے میں استفسار کیا۔بتایا گیا کہ وہ ادا کر گئے۔انہیں یقین نہ آیا‘تو دستاویزات دکھادی گئیں۔ایک اخبار نویس اور کالم نگارنے اس کی خبر کیا دی کہ دشنام کا ہدف بن گئے۔وہ طوفان ِ بدتمیزی برپا ہوا کہ الامان و الحفیظ۔تحریکِ انصاف کے لوگوں نے اپناہی ریکارڈ توڑ ڈالا۔

میرامسئلہ یہ نہیں کہ بل ادا ہوئے یا نہیں۔میرا مسئلہ وہ انتہا پسندی ہے‘ جو آنکھوں ہی کا نہیں ‘دلوں کابھی حجاب بن گئی ہے۔اس بے رحمی پرمجھے ذاتی حیثیت میں دکھ ہوا۔اس کالم نگار کو میں تین عشروں سے جانتا ہوں‘ جو میرے لیے بھائیوں کی طرح ہے۔کم و بیش تیس سال پہلے ملاقات ہوئی تھی۔دھان پان سا ایک نوجوان جو پہلی ملاقات میں اخلاص‘ سادگی اور بے تکلفی کا مرقع نظر آیا۔آج بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا۔وہ مردان سے نکلا اور اسلام آباد کا مکین بن گیا۔تجربات اور انسانوں نے اسے بہت کچھ دیا اور بہت کچھ چھینا‘ مگر یہ اخلاص‘سادگی اور بے تکلفی اس سے کوئی نہ چھین سکا۔آج بھی ملتا ہوں‘ تو اسی تاثر کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں‘ جو پہلے ملاقات کا حاصل تھا۔

اس کی قبائلی جارحیت کبھی کبھی اس پرغالب آتی ہے‘ لیکن یہ بات کہ وہ کسی مادی منفعت کے لیے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا دے گا‘اس کاامکان‘ا س کے جاننے والوں کے نزدیک‘ موجودنہیں۔وہ جسے درست سمجھتا ہے‘اس کے لیے استقامت دکھاتا ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ میں تھا ‘تو شہادت کی آرزو میں افغانستان جا پہنچا تھا۔مذہب‘ روایت اور فطرت کے خمیر سے بنے شاکلہ انسانی میں تبدیلی کم ہی آتی ہے۔

اپنے قصیدے پڑھنا آسان ہے۔خود کو بطل ِحریت سمجھنا اور باتوں باتوں میں اس کا تاثر دینا ‘اب اتنا عام ہو گیا ہے کہ استثنا ڈھونڈنا مشکل ہے۔دیانت اور بہادری‘ مگر وہی ہے جس کی دوسرے گواہی دیں۔کالم نگار کی دیانت کی گواہی ان لوگوں نے بھی دی‘ جو اس کی رائے سے کبھی متفق نہیں ہوئے۔واقعہ یہ ہے کہ سچی گواہی خود گواہ کے نجیب ہونے کی علامت ہے۔ شاہ روم ہرقل کے دربار میں ابو سفیان سے پوچھا گیا : محمدﷺ اعلان ِ نبوت سے پہلے کیسے تھے؟

کہا:’صادق‘۔یہ نجابت ابوسفیان کے کام آئی۔ اسلام کی دولت نصیب ہوئی۔فتح مکہ کے دن اعلان فرمایاگیا:اس کو پناہ مل گئی‘ جو ابو سفیان کے گھر آگیا۔ گواہیوں کے باوجود ‘زبانیں ہیں کہ دشنام سے رکتی نہیں۔قلم ہیں کہ غلاظت سے لتھڑتے ہوئے ہیں۔ کالم نگار اپنی خبر کی تائید میں دستاویزات پیش کر رہا ہے‘ مگر کوئی دیکھنے کو تیار نہیں۔یہی نہیں ‘اس کے ان گنت کالم گواہ ہیں کہ وہ نوازشریف کا بھی ایسا ہی بے رحم ناقدہے‘ جیسے عمران خان کا۔ اس کے باوجود ‘یہ دہن دریدہ ہیں کہ ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟

یہ انتہا پسندی ہے‘ہمارا معاشرہ جس کی گرفت میں ہے۔اس کا مذہب میں ظہور ہو تا ہے‘ تو فرقہ واریت وجود میں آتی ہے اور مسجدیں مقتل بن جا تی ہیں۔یہ سیاست میں ظاہر ہوتی ہے‘ تواہلِ سیاست کو دو گروہوں میں تقسیم کردیتی ہے۔

ایک طرف دیوتا اور دوسری طرف شیطان۔ عمران خان کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا رہنما اگر ‘ معصوم‘ نہ سہی‘ ‘محفوظ‘ تو ہے۔ہر وہ بات جھوٹی ہے‘ جو اس کی کسی انسانی کمزوری کی نشان دہی کر تی ہو۔دوسری طرف‘ان کے خیال میں نوازشریف سراپاِ شر ہیں اور ان کی طرف کسی انسانی خوبی کی نسبت جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ۔یہی معاملہ عمران خان کے بہت سے مخالفین کا ہے ‘لیکن واقعہ یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے اس کو جس انتہا تک پہنچا یا ہے‘اس کی پیروی کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں۔

یہ رومان اور ہیجان کا ایسا تباہ کن امتزاج ہے کہ اس نے سیاسی اختلاف کو دشمنی میں بدل ڈالا۔معروضیت باقی نہیں رہی۔انتخابات کی تلخی‘ نتائج کے بعد بھی کم ہونے کو نہیں آرہی۔ جیتنے والا زیادہ جارحیت کی طرف مائل ہے۔یہ پہلے 1970ء میں ہوا جب عوامی لیگ کا غصہ انتخابات کے بعد بڑھ گیا۔اس کا سبب معلوم تھا۔انتخابی کامیابی کے باوجود اقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہیں کیا۔آج بھی جیتنے والوں کا غصہ ہے کہ کم ہونے کو نہیں آ رہا۔اقتدار ملنے کے باوصف‘اس کا کیا سبب ہے؟یہ فاتح کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہارنے والوں کو خیر سگالی کا پیغام بھیجے۔وہ ان کی دل جوئی کی کوشش کر ے۔وہ ان کے غصے کو فطری سمجھے کہ یہ ہارکا دکھ ہے۔وہ جواباً غصے میں نہ آئے۔جیتنے والے کا چند روزہ صبر زخموں کو مندمل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ہار نے والے بھی وقت گزر نے کے ساتھ ہار کو قبول کر لیتے ہیں اور یوں زندگی معمول کی طرف لوٹ آتی ہے۔

بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔جیتنے والا ہارنے والوں سے زیادہ غصے میں ہے۔وہ انہیں للکار رہا ہے کہ و ہ باہر نکلیں اور دھرنا دیں۔وہ انہیں کنٹینر فراہم کرے گا۔اکسانے کا یہ کام تو جیتنے والے کبھی نہیں کرتے۔اس سے کچھ اور ہو نہ ہو‘یہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ نفرت اور اختلاف کی شدت ‘گلی محلے کی سطح پر بھی باقی رہتی ہے‘ جو انتخابات کے دنوں میںاپنے عروج پر ہوتی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیںکہ پاکستان تحریکِ انصاف 2013ء میں ہاری‘ تو بھی جذبات کو نیچے نہیں آنے دیا گیا۔جیت ہو تو ہیجان۔ہار ہو تو ہیجان۔یہ رویہ کس بات کی علامت ہے؟بعض لوگ اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ ملک کوفاشزم کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے۔فاشزم میں ایک طبقے کے خلاف نفرت کو ہوا دی جا تی ہے۔

جذبات کو حیلوں بہانوں سے مشتعل رکھا جا تا ہے۔اسی کے ذریعے عدالتوں پر بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے اور میڈیا پر بھی۔ایسی فضا بنا دی جاتی ہے کہ ایک خاص گروہ کے حق میں کوئی کلمہ خیر نہ کہے۔اگر کوئی کہہ بیٹھے تو اس کو اس طرح نکو بنا دیا جا ئے کہ اس کے بعد‘کوئی اسے دُھرانے کی جرأت نہ کر سکے۔

اس کے ساتھ‘ فاتح کو مسیحا بنا کر پیش کیا جا تا ہے اور اس کے خلاف کچھ کہنے کا مطلب خود کوعوامی غصے کی نذر کرناہے۔اس کے ہر غلط کام کی بھی تاویل ہوتی ہے اور بظاہر آزاد معاشرے میں بھی بات کہنے کی آزادی نہیں ہو تی۔حالیہ تاریخ میں بھی لوگوں نے اشتراکیت اور مذہب کے نام پر بر سر اقتدارآنے والے گروہوں کے ہاتھوں ‘ایسے بے شمار مناظر دیکھے۔فاشزم اورپاپولزم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ہٹلر اور مسولینی کم پاپولر نہیں تھے۔ عوامی مقبولیت ہی فاشزم کی بنیاد بنتی ہے۔اللہ نہ کرے کہ پاکستان اس راہ کا مسافر بنے۔عمران خان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ تاثر قائم نہ ہونے دیں۔لازم ہے کہ میڈیا میں آزادی رائے کو یقینی بنایا جائے۔اس کے ساتھ وہ اپنی جماعت کے کارکنوں تک بھی یہ پیغام پہنچا ئیں کہ اختلاف سیاسی عمل کا حصہ ہے۔اسے خندہ پیشانی سے گوارا کیا جائے اور یہ کہ ہر اختلاف کر نے والا بد دیانت نہیں ہو تا۔

رائے ساز لوگوں کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔انہیں عوام کو بتا نا ہوگا کہ ہم انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں۔یہاں دیوتا پائے جاتے ہیں ‘نہ شیطان۔کہیں خیر غالب ہو سکتا ہے اور کہیں شر۔جہاں آپ کے خیال میں شر کا غلبہ ہے‘لازم نہیں کہ وہاں سے کبھی خیر کا صدور نہ ہو یا جہاں خیر غالب ہے‘وہاں شر کا امکان نہیں ہے۔کالم نگار کے بیان میں صداقت ہوسکتی ہے‘اس کے باوجود کہ نوازشریف آپ کو پسندنہیں ہیں۔اگر آج کوئی گواہی نوازشریف صاحب کو ایک بہتر آدمی ثابت کرتی ہے‘ تو کل اس کے برعکس بھی کوئی گواہی آ سکتی ہے۔دونوں بیک وقت درست ہوسکتی ہیں۔انہیں انسان ہی سمجھنا چاہیے‘تاہم صحافی بھی کرپٹ ہو سکتا ہے۔میں اخبار نویس اورکالم نگار کی اس تجویز کی حمایت کرتا ہوں کہ کوئی عدالتی کمیشن ہو ‘جو ان کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے