پاکستان و اقعتا” نیا “ کس طرح دِکھنے لگے گا

عید کی تعطیلات کے دوران میں نے خود کو ا چھی بری خبروں سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سوشل میڈیا سے بھی دور رہا۔ ایسے ایام میں لیکن رسم دُنیا نبھانے کی خاطر چند ملاقاتیں ضروری ہوتی ہیں۔کھانے کی چند دعوتوں سے فرار بھی ممکن نہیں ہوتا اور پاکستان کااہم ترین مسئلہ یہ بھی ہوچکا ہے کہ احباب مل بیٹھیں تو سوائے سیاست کے اور کوئی موضوع گفتگو کو گرمانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ عمران خان صاحب کے مداحین کے لئے ویسے بھی یہ عید دوگنی خوشی کی حامل تھی۔ 22سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد ان کے محبوب وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوچکے ہیں۔ پاکستان ان کو اب ”نیا“ لگنا شروع ہوگیا ہے۔

مجھے ملنے کو آئے عمران خان صاحب کے تمام مداحین نے بہت فخر کے ساتھ پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس تردید کا ذکر کیا جس کے ذریعے امریکی حکومت کے اس دعوے کو جھٹلایا گیا کہ اس کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر اعظم سے ٹیلی فون کے ذریعے ہوئی گفتگو میں ”دہشت گردی“ کا بھی ذکر کیا۔پاکستان پر زور دیا کہ وہ اس کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔

ہماری وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہوئی تردید کو خان صاحب کے مداحین نے ”نئے پاکستان“ کی نوید کے طورپر لیا۔ وہ مجھے مجبور کرتے رہے کہ میں اس کی اہمیت کا اعتراف کروں۔مجھے ملنے کو آئے عمران خان صاحب کے تمام مداحین یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوئے کہ مجھے مذکورہ تردید کی بابت کچھ خبر نہیں۔ انہیں شبہ تھا کہ لاعلمی کی آڑ لے کر میں ان کی فخر بھری مسرت میں شریک نہیں ہورہا۔

عید کے دوسرے روز کی رات ایک کھانے سے واپسی کے بعد لہذا عمران خان صاحب کے مداحین کے دلوں کو گرمانے والی تردید کے بارے میں تفصیل سے جاننے پر مجبور ہوگیا۔ میری تحقیق کا مقصد فقط یہ معلوم کرنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کی حکومتوں نے عمرا ن خان اورپومپیوکے درمیان ہوئی گفتگو کے بارے میں اپنے عوام کو کیا بتایا ہے۔ میں ہرگز یہ طے نہیں کرسکتا کہ دونوں میں سے کون سچ بیان کررہا ہے۔ اگرچہ ایک پاکستانی ہوتے ہوئے میری شدید خواہش ہے کہ اس ضمن میں بالآخر امریکی ہی جھوٹے قرار پائیں۔

کسی بھی ملک کا حکمران یا اہم رہ نما جب کسی دوسرے ملک کے سربراہ یا اہم حکومتی اہلکار سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتا ہے تواس کے بارے میں پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ہمیشہ اس پہلو کی جانب زیادہ توجہ دی جاتی ہے جو دونوں میں سے کسی ایک ملک کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ افغانستان نے ان دنوں واشنگٹن کو ایک بار پھر بہت پریشان کررکھا ہے۔ اپنی پریشانی کا باعث مگر وہ پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ پومپیو نے وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ٹیلی فون پر جو گفتگو کی اس کی ریکارڈنگ ہمارے پاس موجود نہیں۔ پومپیو کی افغانستان کے حوالے سے مگر ایک اہم ترین معاون ہے۔ نام ہے اس کا ایلس ویلز۔ اس نے بھی گزشتہ پیر کی صبح ویت نام جانے سے قبل کیمروں کے روبرو ایک بیان دیا تھا۔

اس بیان میں پاکستان میں آئی نئی حکومت کے بارے میں دوستانہ جذبات کے اظہار کے بعد اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کا کردار "Critical”ہے۔ میں اس کا ترجمہ ”کلیدی“ کروں گا۔ ہمیں ”کلید“ ٹھہرانے کے بعد سادہ اور واضح ترین الفاظ میں اس خواہش کا اظہارہوا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز کی جانب دھکیلے(Push)۔اگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوں تو انہیں پاکستان سے نکال دیا جائے۔ لگی لپٹی رکھے بغیریہ الزام بھی دہرادیا گیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کرنے والے پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں Enjoyکررہے ہیں۔

کیمروں پر ریکارڈ ہوئے ایلس ویلز کے مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں غیر جانب دار اذہان یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ شاید اس بیان کے بعد پومپیو کی عمران خان صاحب کے ساتھ ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو میں ایلس کی بیان کردہ باتوں ہی کو دہرایا گیا ہوگا۔ اگرچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکی وزارتِ خارجہ نے اپنے لوگوں کی تسلی کے لئے اس گفتگو کی پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے پنجابی محاورے والا ”مٹھا“ زیادہ ڈال دیا ہوگا۔

عمران خان صاحب کی لیکن ایک Core Constituency ہے۔ امریکی سیاسی لغت میں اسے Baseکہا جاتا ہے۔ سفید فام متعصب امریکی مثال کے طورپر صدر ٹرمپ کی Baseہیں۔ وہ انہیں ہر صورت خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمارے خان صاحب کی Baseمگر یہ سمجھتی ہے کہ ہماری گزشتہ حکومتیں امریکہ کے ضرورت سے زیادہ تھلے لگی رہی ہیں۔ ہمیں ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو Enough is Enoughکہہ سکے۔ عمران خان صاحب کی صورت میں بالآخر وہ لیڈر مل گیا ہے۔

اس Baseکی گرم جوشی، امیدوں اور توقعات کو برقرار رکھنے کے لئے پاکستانی وزارتِ خارجہ کو امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہوئی تردید کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جواب آں غزل کے طور پر امریکی وزارتِ خارجہ بھی اپنے دعویٰ پر ڈٹی رہی۔ معاملہ طے نہ ہوپایا۔

آنے والے دنوں میں ہمیں اس بات کے لئے تیار رہنا چاہیے کہ افغانستان کے تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ اور عمران حکومت اپنی اپنی Baseکو تسلی دینے اور خوش کرنے والی باتوں پر ڈٹی رہیں گی۔ دونوں فریقین میں سے کسی ایک کی جانب سے بھی ذرا جھک کر کوئی درمیانی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش نہیں ہوگی۔دونوں جانب سے اپنائی اس ”ثابت قدمی“ کے مضمرات بہت سنگین بھی ہوسکتے ہیں.

پاکستان کے دُگرگوں معاشی حالات کے سبب ہمیں ان مضمرات کو امریکہ کی نسبت زیادہ سنجیدگی سے لینا ہوگا۔

وقتی طورپر اگرچہ عمران حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ماضی کی حکومتوں کی طرح امریکہ کے سامنے ”بکری“ ہوئی نظر آئے۔ ”شیر بن شیر“ کی کیفیت برقرار رکھنے کے لیکن چند تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے لئے ان تقاضوں سے مفر ممکن نہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ عمران حکومت ”بکری“ سے ”شیر“ بننے کے اسباب کیسے فراہم کرتی ہے۔یہ بہم ہوجائیں تو پاکستان واقعتا ”نیا“ دِکھنے لگے گا وگرنہ بہادر تو اپنے تئیں صدام حسین بھی بہت تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے