صدر کیسے بنتا ہے ؟

موجودہ صدر مملکت ممنون حسین کی مدت پوری ہونے کے بعد پاکستان کے آئندہ صدر کے لیے انتخاب 4 ستمبر کو ہوگا جس کے لیے تحریک انصاف نے عارف علوی کو امیدوار نامزد کیا ہے جب کہ اپوزیشن اپنا متفقہ امیدوار لانے میں ناکام ہوگئی ہے جس کے باعث پیپلزپارٹی کے اعتزاز احسن اور (ن) لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمان ہیں۔

صدر کے انتخاب کے لیے نمبر گیم اور طریقہ کار پیچیدہ ہے جسے سمجھنے کے لیے الیکٹورل فارمولا اور طریقہ کار ذیل میں دیا گیاہے۔

ایوانوں میں نشستیں

سینیٹ میں پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کی 27 نشستیں ہیں جب کہ متحدہ اپوزیشن کے 75 نشستیں ہے۔

قومی اسمبلی میں متحدہ حکومت کی 176 نشستیں ہیں جب کہ متحدہ اپوزیشن کے 154 نشستیں ہیں۔

خیبر پختونخوا میں حکومت کے پاس 80 اور اپوزیشن کے پاس 34 نشستیں ہیں۔

پنجاب میں حکومت کے پاس 185 اور اپوزیشن کے پاس 173 نشستیں ہیں۔

سندھ میں حکومت کے پاس 98 اور اپوزیشن کے پاس 68 نشستیں ہیں۔

بلوچستان میں حکومت کے پاس 39 اور اپوزیشن کے پاس 22 نشستیں ہیں۔

صدارتی الیکشن میں ووٹنگ فارمولا:

سینیٹ: کل نشستیں 104، خالی نشستیں 2 اور موجودہ نشستیں 102: صدارتی انتخاب میں سینیٹ کے کل ووٹ 104 ہیں اور ہر رکن سینیٹ کا ووٹ ایک ووٹ تصور ہوگا۔

قومی اسمبلی: کل نشستیں 342، خالی نشستیں 12 اور موجودہ نشستیں 330: صدارتی انتخاب میں قومی اسمبلی کے کل ووٹ 342 ہیں اور ہر رکن قومی اسمبلی کا ووٹ ایک ووٹ تصور ہوگا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی: کل نشستیں 124، خالی 10 اور موجودہ نشستیں 114ؒ: صدارتی انتخاب میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے کل ووٹ 65 ہیں اب 114 کو 65 پر تقسیم کریں گے تو 1.75 کی اوسط سے ایک ووٹ تصور کیا جائے گا۔

پنجاب اسمبلی: کل نشستیں 371، خالی نشستیں 13 اور موجودہ نشستیں 358: صدارتی انتخاب میں پنجاب اسمبلی کے کل ووٹ 65 ہیں اب 358 کو 65 پر تقسیم کریں تو 5.50 کی اوسط سے ایک ووٹ کاسٹ ہوگا یعنی پنجاب اسمبلی میں 11 اراکین ووٹ ڈالیں گے تو 2 ووٹ تصور کیے جائیں گے۔

سندھ اسمبلی: کل نشستیں 168، خالی نشستیں 2 اور موجودہ نشستیں 166: صدارتی انتخاب میں سندھ اسمبلی کے کل ووٹ 65 ہیں اب 166 کو 65 پر تقسیم کریں تو 2.55 کی اوسط سے ایک ووٹ کاسٹ ہوگا۔

بلوچستان اسمبلی: کل نشستیں 65، خالی نشستیں 4 اور موجودہ نشستیں61: صدارتی انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے کل ووٹ 65 ہیں اور یہاں صرف 61 ووٹ استعمال ہوں گے۔

متحدہ حکومت: سینیٹ میں 27 نشستیں+ قومی اسمبلی میں 176 نشستیں+ پختونخوا میں 46 نشستیں+ پنجاب میں 34 نشستیں+ سندھ میں 27 نشستیں اور بلوچستان میں 39 نشستیں، اس طرح کل ملا کر 349 نشستیں ہیں۔

متحدہ اپوزیشن: سینیٹ میں 75 نشستیں + قومی اسمبلی میں 154 نشستیں+ پختونخوا میں 19 نشتیں+ پنجاب میں 31 نشستیں+ سندھ میں 38 نشستیں اور بلوچستان میں 22 نشستیں، ا طرح کل ملا کر 339 نشستیں ہیں۔

متحدہ اپوزیشن میں تقسیم کے باعث پیپلزپارٹی کی قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں الگ بھی ہوسکتی ہیں۔

مشترکہ صدارتی امیدوار لانے میں ناکامی پر اپوزیشن جماعتیں پیپلزپارٹی پر پھٹ پڑیں

صدر کے انتخاب کا طریقہ کار

چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا صدارتی انتخاب کے لیے ریٹرنگ آفیسر ہیں جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور سینٹ و قومی اسمبلی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پریزائیڈنگ آفیسر کی ذمہ داری سر انجام دیں گے۔

سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی پارلیمنٹ ہاؤس میں پولنگ کے عمل میں حصہ لیں گے جب کہ ارکان صوبائی اسمبلی اپنی متعلقہ اسمبلیوں میں قائم پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ میں حصہ لیں گے۔

واضح رہے کہ خالی نشستوں کے علاوہ قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے کُل ممبران کی تعداد 706 ہے، اس طرح قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے ہر ممبر کا ووٹ ایک ووٹ تصور ہوگا۔

سب سے چھوٹی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے، یوں دیگر تینوں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد کو 65 پر تقسیم کرنے سے جو نمبر نکلتا ہے، ان اسمبلیوں کے اتنے اتنے ارکان مل کر ایک ووٹ رکھتے ہیں۔

یعنی اس طرح پنجاب کے 5.7 ممبران ، سندھ اسمبلی کے 2.58 ممبران اور خیبر پختونخواہ کے 1.9 ممبران اسمبلی کا ایک ووٹ شمار ہوگا۔

قومی اسمبلی کے 342، سینیٹ کے 104 اور چار صوبائی اسمبلیوں کے 65×4 ارکان کا مجموعہ 706 نکلتا ہے جو کہ الیکٹورل کالج کا مجموعی نمبر ہے۔

قومی اسمبلی میں اس وقت 342 میں سے 330 ارکان موجود ہیں اور 12 سیٹیں خالی ہیں، اس طرح 330 میں 176 ارکان پی ٹی آئی اتحاد، 150 اپوزیشن اتحاد اور 4 آزاد ارکان ہیں۔

سینٹ میں 68 ارکان کا تعلق اپوزیشن اتحاد سے ہے اور 25 کا تعلق پی ٹی آئی اتحاد سے جب کہ 11 ارکان آزاد ہیں۔

یوں وفاقی پارلیمان میں پی ٹی آئی اتحاد کو 201 اور اپوزیشن اتحاد کو 218 ووٹ حاصل ہیں جب کہ 15 ارکان آزاد ہیں۔

صدر مملکت کا حلف

انتخابات کے نتیجے میں جو بھی صدر مملکت منتخب ہوگا اس سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعنی چیف جسٹس آف پاکستان حلف لیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے