صدارتی امیدوارکی نامزدگی ، دودیرینہ دوست آمنے سامنے

صدارتی الیکشن مولانافضل الرحمن اورآصف علی زرداری کی دوستی کے لیے کڑاامتحان بن گیا

آصف علی زرداری اعتزازاحسن کوقربان کرکے نہ صرف متحدہ اپوزیشن کوبکھرنے سے بچاسکتے ہیں بلکہ اپنے دوست کوبھی ایوان صدرتک پہنچاسکتے ہیں

اسلام آباد(تجزیاتی رپورٹ ،عمرفاروق )مولانافضل الرحمن کی صدارتی امیدوارکی نامزدگی ،دودیرینہ دوست آمنے سامنے آگئے ،صدارتی الیکشن مولانافضل الرحمن اورآصف علی زرداری کی دوستی کے لیے کڑاامتحان بن گیا ،آصف علی زرداری اعتزازاحسن کوقربان کرکے نہ صرف متحدہ اپوزیشن کوبکھرنے سے بچاسکتے ہیں بلکہ اپنے دوست کوبھی ایوان صدرتک پہنچاسکتے ہیں دوسری طرف مولانافضل الرحمن کی دستبرداری میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدواراعتزازاحسن کوووٹ نہیں دے گی مسلم لیگ نواز اور اس کی اتحادی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کو ستمبر میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنا امیدوار مقرر کیا ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی نے بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔دونوں امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں۔

اس پیش رفت یا پس رفت نے پاکستان میں متحدہ حزب اختلاف کے وجود کے کسی امکان کو فی الوقت دھندلا دیا ہے۔یہ سب ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان میں تحریک انصاف کی قیادت میں ایسی اتحادی حکومت مرکز میں قائم ہے جس کو پاکستان کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کے مبینہ مخالف جمہوری رجحانات سے ہم آہنگ حکومت قرار دیا جارہا ہے۔صدارتی الیکشن میں دوست آصف علی زرداری اورمولانافضل الرحمن آمنے سامنے آگئے ہیں یہ الیکشن دونوں کی دوستی کے لیے امتحان بن گیاہے مولانافضل الرحمن نے تویہ کہہ دیاہے اگرآصف علی زرداری نے میراساتھ نہ بھی دیاتومیری ان سے دوستی برقراررہے گی اوراس پرکوئی فرق نہیں پڑے گا واضح رہے کہ مولانافضل الرحمن آصف علی زرداری کے کافی قریب ہیں پیپلزپارٹی کی حکومت میں بھی مولانافضل الرحمن تین سال تک اتحادی رہی ہے اس کے ساتھ مولانافضل الرحمن کی جب مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئی تھی تواس وقت بھی ان دونوں کے درمیان دوستی کایہ رشتہ برقراررہابلکہ مولانافضل الرحمن نے پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کے درمیان پل کاکرداراداکیا اب بھی الیکشن کے بعد مولانافضل الرحمن نے نہ صرف پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کوقریب لایابلکہ دیگراپوزیشن جماعتوں کومتحدکرنے میں کرداراداکیا مگرمتحدہ اپوزیشن میں اس وقت اختلافات پیداہوگئے جب پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کے وزارت عظمی کے امیدوارکوووٹ نہیں دیا اوراب صدارتی امیدوارکے طورپرتنہاہی چوہدری اعتزازاحسن کوسامنے لے آئی ہے

یہاں بھی آصف علی زرداری کے دوست مولانافضل الرحمن نے اپوزیشن جماعتوں کوپھرمتحدکیا اوراپوزیشن جماعتوں نے مولانافضل الرحمن کوفیصلے کااختیاردیامگرآصف علی زرداری اس وعدے سے منحرف ہوگئے بعدازاں مسلم لیگ ن اوردیگراپوزیشن جماعتوں نے مولانافضل الرحمن کوصدارتی امیدوارنامزدکیاتویہ فیصلہ آصف علی زرداری کے لیے حیران کن تھا اوروہ اب دورائے پرکھڑے ہوگئے ہیں ،دیکھا جائے تو مسلم لیگ نواز اور اس کی اتحادی جماعتیں ایک طرف اور دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی اکیلی ہوگی اور یہ تقسیم بہرحال کسی موثر اپوزیشن کے امکان کو ختم کردے گی۔یہاں پہ سب سے اہم اور بڑا سوال یہ ہے کہ اپوزیشن میں اس پھوٹ کے بعد کیا پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت اپوزیشن کے دونوں کیمپوں کے خلاف احتساب کی مہم چلائے گی؟

پیپلز پارٹی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی شاید اس وقت تک ترک نہیں کرے گی جب تک اس کے مقرر کردہ ریڈ زون کو عبور نہیں کیا جائے گا؟ریڈ زون کیا ہے؟سب سے پہلے تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ایک ریڈ زون ہے کہ اس کو کام کرنے سے روکا گیا تو پھر دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی چھناکے سے ٹوٹ جائے گی۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایف آئی اے کوئی ایڈونچر کرنے پہ تل جاتی ہے اور وہ آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کو جیل کی راہ دکھاتی ہے تو کیا پھر بھی آہستہ رو اپوزیشن جاری رہے گی؟میرے خیال میں آصف علی زرداری جیل جانے کے آپشن کو ذہن میں رکھے ہوئے ہیں اور ایسی صورت میں بھی پارٹی کسی ملک گیر تحریک کا آغاز کرنے کے موڈ میں فی الحال تو نظر نہیں آتی۔لگتا ایسا ہے کہ آصف علی زرداری سمیت اگر چند رہنمائوں کی گرفتاری ہوئی بھی تو پی پی پی اس کے بدلے سندھ حکومت کی قربانی نہیں دے گی تاوقتیکہ خود مرکز اسے قربان کرنے پہ نہ تل جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے