پاک روس اکھ مٹکہ ( چوتھا حصہ )

گذشتہ مضمون میں یہ بات ہوئی کہ بھٹو حکومت نے کیسے امریکا اور چین سے اپنے روائیتی تعلقات کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی تخلیق کے تناظر میں سوویت یونین کی کھلی مخاصمت کو ایک ورکنگ ریلیشن شپ میں بدلنے کی کوشش کی۔

جب فرانسیسی جوہری پلانٹ کی خریداری کے شاخسانے پر امریکا نے پاکستان اور فرانس پر سودے کی منسوخی کے لیے بے پناہ دباؤ ڈالا اور بھٹو صاحب غلط یا صحیع اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’ سفید ہاتھی‘‘ ان کے خون کا پیاسا بن چکا ہے تو یہاں تک بھی سننے میں آیا کہ بھٹو نے مبینہ طور پر سوویت یونین کو پیش کش کی کہ وہ بحرہند اور خلیجِ فارس و افریقہ تک آسان رسائی کے لیے کراچی کی بندرگاہ استعمال کر سکتا ہے اور گوادر کو بھی ترقی دے سکتا ہے۔

اگر یہ کہانی درست بھی ہے تب بھی سوویت یونین ’’گرم پانیوں تک رسائی‘‘کی پاکستانی پیش کش کو کئی وجوہات کے سبب سنجیدگی سے نہیں لے سکتا تھا۔اول، یہ پیش کش اگر ہوئی بھی تو ایک ایسی حکومت کی طرف سے ہوئی جس کا اپنا وجود ڈانواڈول تھا۔دوم، سوویت یونین پہلے ہی بھارت کی بندرگاہی سہولتیں( وشاکا پٹنم ) استعمال کر رہا تھا لہذا اسے بھارت جیسے قابلِ اعتماد اتحادی کو چھوڑ کے پاکستان کی پیش کش قبول کرنے کی کسی بھی لحاظ سے ضرورت نہ تھی۔سوم، سوویت یونین تیل کی پیداوار میں خود کفیل تھا لہذا اسے خلیج کے دہانے پر کسی بندرگاہ کی ضرورت نہیں تھی۔اگر بحرِ ہند میں امریکی موجودگی پر نگاہ رکھنے کے لیے بحری اڈوں کی ضرورت بھی تھی تو اس کام کے لیے جنوبی یمن میں عدن اور صومالیہ میں موگادیشو کے بحری اڈے موجود تھے اور دونوں ممالک کی حکومتیں بظاہر مارکسسٹ ہونے کا تاثر بھی دے رہی تھیں۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد کریملن سے متعلق اب تک جو خفیہ دستاویزات سامنے آئی ہیں، ان سے بھی ایسا عندیہ نہیں ملتا کہ سوویت یونین کو گرم پانیوں تک رسائی کے لیے سرد جنگ کے کسی بھی دور میں پاکستان کی ضرورت تھی اور وہ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے مرا جا رہا تھا۔

حتیٰ کہ افغانستان میں سوویت فوجیں اتارنے کے معاملے پر سوویت پولٹ بیورو میں جو بحثیں ہوئیں ان سے بھی یہ عندیہ نہیں ملتا کہ سوویت یونین کی جنوبی سرحدوں سے متصل افغانستان میں اس لیے فوجیں بھیجی جائیں تاکہ وہاں سے گرم پانیوں تک رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ایسی کوئی بھی مہم جوئی تیسری عالمی جنگ کو دعوت دینا تھی جس کے نتیجے میں خلیج ِ فارس سے مغربی دنیا تک تیل کی رسائی خطرے میں پڑ سکے اور سوویت معیشت اس وقت ایسا کوئی ایڈونچر سہارنے کے قابل نہیں تھی۔

گرم پانیوں تک رسائی کا نظریہ مغربی دانش گاہوں اور خارجہ دفاتر کی ایجاد ہے اور یہ ایجاد انیسویں صدی میں ہوئی جب روس کی زار شاہی وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں پر قبضے کے سبب افغان سرحد تک آن پہنچی اور برٹش انڈیا کو زار شاہی کی پیش قدمی روکنے کے لیے ایک غیرجانبدار افغانستان کی اشد ضرورت پڑی۔

دسمبر انیس نو اناسی میں جب سوویت فوجیں کابل میں اتریں تو اس کا مقصد کابل کی کمزور مارکسسٹ حکومت کو برقرار رکھنا تھا تاکہ سوویت یونین کی جنوبی سرحدیں کابل میں کسی دشمن حکومت کے وجود یا مسلم اکثریتی سوویت ریاستوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے خطرات سے محفوظ رکھی جا سکیں۔یہ سوویت فوبیا کس قدر حقیقی اور کس قدر فرضی تھا بعد میں مجاہدین ، پھر طالبان ، پھر القاعدہ اور پھر داعش کی موجودگی اور ان تنظیموں سے وسطی ایشیائی شدت پسند گروہوں کے الحاق سے سوویت خوف کی پوری نفسیات سمجھ میں آ سکتی ہے۔

بہرحال گرم پانی کی تھیوری کو ضیاء حکومت نے اپنے حق میں خوب خوب استعمال کیا اور اس تھیوری کو ریگن ، مارگریٹ تھیچر اور سعودی اسٹیبلشمنٹ نے خوب خوب خریدا اور یوں سوویت ریچھ کو افغان پہاڑوں میں ٹریپ اور شکار کرنے کی کامیاب حکمتِ عملی کو آگے بڑھایا گیا۔

افغان المئے کو میں اس لحاظ سے جیو پولٹیکل المیوں کی ماں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی ایک ملک یا طاقت ایسی نہیں جو خود کو حقیقی فاتح کہہ سکے۔افغانستان کا اپنا بھرکس تو نکلا ہی، سوویت یونین کا بھی یہ آخری ایڈونچر ثابت ہوا۔پاکستانی سماج کو کلاشنکوف ، منشیات اور انتہاپسندی کی شجرکاری نے توڑ پھوڑ دیا ، عرب مجاہدین کا جن بوتل سے باہر نکل گیا اور اس نے القاعدہ و داعش بن کر ان سب کو ڈسنا شروع کر دیا جنہوں نے اس جن کو دودھ جلیبی پر پالا تھا۔افغان ریاست اس قدر کمزور ہو گئی کہ وہاں ہر اسٹیٹ و نان اسٹیٹ ایکٹر اور ریجنل کھلاڑی ایسے کھل کھیلا کہ خود کھلاڑیوں کو اپنی بقا کے لالے پڑ گئے اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے نے تو سب کے مفاداتی تابوت میں آخری بحرانی کیل ٹھونک دی۔

مشکل یہ ہے کہ کوئی ریاست کبھی تاریخ سے نہیں سیکھتی جب تک جغرافیہ اسے بالوں سے پکڑ کے سیاسی موقع پرستی کے جلاد کے حوالے نہ کر دے۔سوویت یونین، امریکا ، عرب اتحادیوں اور پاکستان نے ایک دوسرے کے ساتھ پچھلے چالیس برس میں کیا نہیں کیا۔اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔جو نسل اس عرصے میں بچپنے سے نکل کے پچپنے میں داخل ہو گئی اسے سب معلوم ہے۔

آج کی دنیا چالیس برس پہلے کے مقابلے میں تین سو ساٹھ ڈگری گھوم چکی ہے۔چین ایک پسماندہ ایٹمی طاقت کے درجے سے نکل کے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔چالیس برس پہلے وہ صرف بانسری بجاتا تھا،آج پورا جیو پولٹیکل آرکسٹرا کنڈکٹ کر رہا ہے۔

نظریاتی سوویت یونین کی جگہ لینے والی غیر نظریاتی روسی قیادت آئیڈیل ازم کے بجائے سو فیصد عملیت پسند ہے۔ پاکستان مغرب سے سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے بعد رفتہ رفتہ محلے کی طرف لوٹ رہا ہے اور ہمسائیوں کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔چین پاکستان میں سی پیک تعمیر کر رہا ہے، روس اور پاکستان خدا کی شان ہے کہ افغانستان کے بارے میں ایک پیج پر آ رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں لاکھ روائیتی مخاصمت سہی مگر روس میں ہونے والی حالیہ مشترکہ فوجی مشقوں میں بھارتی اور پاکستانی فوجی بھی حصہ لے رہے ہیں۔

روسی کمانڈوز چراٹ میں پاکستانی کمانڈوز کے ساتھ فوجی مشقیں کر چکے ہیں، روسی جنرل شمالی وزیرستان کا دورہ کر چکے ہیں، پاکستانی فوجی افسر اب امریکی فوجی اداروں کے بجائے روسی فوجی اکیڈمیوںکے ایڈوانس کورسز میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں۔بھارت کو ماضی کے برعکس اس پیش رفت پر کوئی اعتراض نہیں۔روس اور بھارت سٹرٹیجک طلاق کے بعد ایک دوسرے سے اسی طرح پیش آرہے ہیں جیسے سلجھے ہوئے جوڑے ازدواجی علیحدگی کے بعد اچھے دوست بن جاتے ہیں۔بھارت کا نیا پارٹنر اگرچہ امریکا ہے لیکن ٹرمپ کے ہوتے ہوئے بھارت کو بھی یقین نہیں کہ یہ پارٹنر شپ کس قدر دور تلک جا پائے گی۔لہذا بھارت نے چین سے سرحدی مخاصمت اور روس سے تعلقاتی سردمہری کے باوجود دونوں طاقتوں کے لیے دروازے کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر کھلے رکھے ہوئے ہیں۔

اس منظرنامے میں پاکستان کو مشرقی، مغربی یا شمالی سرحد کی جانب سے کتنا اسٹرٹیجک خطرہ ہے؟میرا خیال ہے زیرو۔کیا پاکستان اس وقت سفارتی تنہائی کا شکار ہے؟میرا خیال ہے کہ پچاس فیصد پتے اب بھی پاکستان کے پاس ہیں۔اگر وہ علاقائی طور پر اوورسمارٹ بننے کی عادت پر قابو پا لے تو پھر بھوت ووت (امریکا،سعودی) کچھ نہیں ہوتا۔اگر پاکستان کو اگلے دس برس میں کوئی بقائی خطرہ لاحق بھی ہے تو بیرون سے نہیں اندرون سے ہے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس سے پاکستان کو خود نپٹنا پڑے گا۔کوئی نہ پہلے مدد کو آیا نہ اب آئے گا۔

اگراس بار بھی پاکستان نے اپنے علاقائی دوستوں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کیا جیسا کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں امریکا کے ہر ہر اشارہِ ابرو پر کر چکا ہے تو پھر اگلے پچیس برس بھی وہ توازن قائم نہیں ہوگا جو پاکستان کے حق میں ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے