سعودی عرب کی معاشی قوت اورالجزیرہ (قسط اول)

بہت کم لوگوں کو سعودی عرب کی معیشت کے بارے میں علم ہے خصوصاٌ نئی معاشی صف بندیوں کے حوالہ سے جو کچھ تبدیلیاں آئی ہیں وہ بڑی دور رس اور ا ہمیت کی حامل ہیں۔ قبل ازیں پاکستانیوں کا سعودی عرب سے معاشی تعلق صرف روزگار کی حد تک تھا۔ اور اب جبکہ وہاں تعمیراتی دور گذر چکاتواب صرف پیشہ ورانہ روزگار کے ہی مواقع موجود ہیں غیر پیشہ ور افراد فراغت کے عمل کا شکار ہیں جو فطری بھی ہے اور منطقی بھی۔

ایسا نہیں ہے کی صرف پاکستانی ہنرمند اور مزدور ہی فارغ ہوئے ہوں ،انڈیا، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، فلپائن انڈونیشیا وغیرہ کے بھی لاکھوں محنت کش واپس اپنے گھروں کو گئے۔ اس سے قبل لیبیا، کویت اور متحدہ عرب امارات سے بھی ابتدائی منصوبے مکمل ہونے کے بعد واپس آچکے ہیں۔پاکستانیوں کا انخلاء سب سے آخر میں ہو رہا ہے۔تا ہم ابھی بھی وہاں 10سے 12 لاکھ پاکستا نی موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھی چاہئے کہ جیسے جیسے تعمیراتی منصوبے تکمیل کو پہنچیں گے ویسے ویسے مزدوروں کی واپسی ہوتی جائے گی۔ ایسا ساری دنیا میں ہوتا ہے کہ ملازمت کی شرائط منصوبوں کی تکمیل تک محدود ہوتی ہیں لیکن پھر بھی سعودی عرب میں پاکستانی محنت کش دہائیوں تک خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

لیکن ا س کا یہ مطلب نہیں کی پاکستانیوں کو مستقل دیس نکالا ملنے والا ہے بلکہ متحدہ عرب امارات کی سی صورتحال ہے جہاں ابتدائی تعمیراتی کام کی تکمیل کے بعد کاروبار اور پیشہ ورانہ ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ اسی طرح اب اگر وہاں سے مزدور واپس آ رہے ہیں تو نئے لوگ جائیں گے۔ Semi Professional, Professionals and Skilledورکرز کے جانے سے نہ صرف ان کے قیام کی مدت میں اضافہ ہو گا بلکہ آمدن میں بھی اضافہ ہوگا بالکل اسی طرح جس طرح امریکہ میں موجود پاکستانی تعداد میں کم ہونے کے باوجود سعودی عرب سے زیادہ remittancesبجھواتے ہیں۔

سعودیہ عرب remittancesبجھوانے میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ چوتھے نمبر پر متحدہ عرب امارات پر ہے۔ سعودی حکومت نے گذشتہ چند سالوں سے اپنی معیشت کا انحصار تیل کی آمدن پر کم کرنے کیلئے قلیل اور طویل مدتی منصوبے بنائے ہیں جن پر کامیابی سے عمل جاری ہے کہ خود آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کی رواں سال کے دوران تیل پر منحصر معیشت میں GDPکا 2.6% اضافہ ہوا جو آیندہ برس کم ہوکر 2%رہنے کاتخمینہ ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں بغیر تیل کی معیشت میں غیر معمولی 3.0%اضافہ ہوا جو آیندہ برس بڑھ کر 3.7%ہوجانے کی توقع ہے۔جو اس بات کا ثبوت ہے کی سعودی حکومت کے تیل پر انحصار کم کرنے سے متعلق اقدامات بہت تیزی سے اثر دکھا رہے ہیں۔

آئی ایم ایف نے سعودی معیشت کی اپنی سالانہ جائزہ رپورٹ میں اس کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے پر زور دیا۔ بدقسمتی سے مکھی پر مکھی مارنے کے عادی پاکستانی میڈیا نے الجزیرہ جیسے متعصب ٹی وی چینل کی خبر کی بنیاد پرمنفی سرخیاں جمادیں۔کسی نے آئی ایم ایف کی ویب سائیڈ پر موجود رپورٹ کو پڑھنے کی زحمت تک گوارا نہ کی کہ اصل رپورٹ میں کیا لکھا ہے۔ قارئین کی راھنمائی کیلئے بتاتا چلوں کہ پاکستانی ایمبیسی قطر کی شکایت پر پیمرا طویل عرصہ قبل انہی حرکتوں کی بناء پراس سازشی چینل کو پاکستان میں دکھائے جانے کا اجازت نامہ منسوخ کر چکا ہے۔

ماضی میں بھی یہ ادارہ پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کا کام بہترین انداز میں کرتا رہا ہے اور آج بھی کچھ اسی طرح کے مشن پر ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کی پاکستان میں نہ صرف اس بات کا کوئی ادراک نہیں کہ سعودی عرب میں اب کاروبار وغیرہ کے کتنے زیادہ مواقع پیدا ہو چکے ہیں اور غلط فہمی کا شکار ہونے کے باعث وہ اس جانب توجہ نہیں دے پائے۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دیگر اقدامات کے علاوہ بحیرہ احمر کے کنارے ایک ہزار کلو میٹر طویل سمندری پٹی کو ترقی دے کر سیاحت کو فروغ دینے کیلئے جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے اس کی مالیت 500 ارب ڈالر ہے جہاں لاکھوں کل وقتی اور جزوقتی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔(جاری)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے