معاشی مستحکم نیا سعودی عرب (دوسری قسط)

حرمین شریفین جیسے مقدس ترین مقامات کی سرزمین سعودی عرب چاروں اطراف سے جنگ میں گھرا ہوا ہے۔ایک جانب حوثی باغی یمن میں قتل وغارت کا بازار گرم کرتے ہوئے وہاں ریاست کے خلاف کھلی بغاوت پر اتر آئے ہیں تو دوسری جانب بحرین میں عدم استحکام کیلئے باہر سے ایسی خوفناک مداخلت ہے کہ کئی دوست ملکوں کوبحرین کو سنبھالنے کیلئے عملی مدد کرنا پڑی۔شام ایک جانب لہو لہو ہے تو گلف اور بحیرہ احمر میں بڑے پیمانے پر گڑبڑ، مگر اس سب کے باوجود سعودی عرب میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔

سعودی معیشت نے جو مسلسل 4برسوں سے بجٹ خسارہ کے سبب مالیاتی دباو کا شکار تھا اب بتدریج اس مسئلہ پر بھی قابو پاچکا ہے۔ان چار برسوں میں اس کا کل خسارہ 260ارب ڈالر ہواہے۔بجٹ خسارہ جو 9.3 فیصد تھا سال رواں میں کم ہو کر 4.6فیصد تک آگیا ہے جو آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق مزید کم ہو کر آیندہ سال صرف 1.7فیصد رہ جائے گا۔ یہ کسی بھی جنگ میں گھرے ہوئے ملک کی جانب سے دی جانے والی غیر معمولی معاشی کارکردگی ہے۔ اسی طرح سال رواں کے دوران سعودی عرب کی تیل آمدن میں بھی غیر معمولی 67فیصد اضافہ ہوا۔

سعودی عرب اگر چاہتا تو فورا ہی اپنا خسارہ ختم کر سکتا تھا مگر جدید معاشی طریقہ کار کے عین مطابق ایسا کرنے کے بجائے سعودیہ نے یہ فائدہ اپنی عوام تک پہنچایا اور اخراجات جاریہ میں 34%اضافہ کیا جس کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچا جو گذشتہ تین برسوں سے معاشی سختی کا شکار تھے۔گوآئی ایم ایف نے اس حوالہ سے اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے لیکن معروضی حالات میں وہ تشویش غیر ضروری ہے کیونکہ ہر ملک اپنی درپیش صورتحال کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور سعودی عرب نے اپنی اضافی آمدن کو براہ راست معیشت کی ترقی کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی ایک اور وجہ سعودی عرب میں موجود بے روزگاری ہے۔ جس کی شرح 12.5%ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق سعودی عرب کو مقامی آبادی کیلئے فوری طور پر 5لاکھ ملازمتوں کی ضرورت ہے جبکہ آئندہ پانچ برسوں میں سعودیہ کو 14 لاکھ نئی ملازمتوں کی ضرورت ہوگی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے جہاں معاشی اصلاحات کا پروگرام بہت تیز رفتاری سے آگے بڑھایا گیا ہے وہیں نئی صنعتوں کی حوصلہ افزائی، کرپشن کی بیخ کنی اور بیرونی سرمایہ کاری کی حاصلہ افزائی بھی شامل ہیں جس کے خاطر خواہ اثرات سامنے آئے ہیں۔

اھم ترین بات یہ ہے کہ سعودی نوجوان قیادت کو اس بات کا نہایت اچھے طریقہ سے احساس ہے کہ نئے عالمی ماحول میں اگر انہیں ایک آزاد خودمختار اور باعزت ملک کے طور پر کھڑے رہنا اور اپنے آس پاس کے بڑہتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کیلئے ایک مضبوط معیشت اور ایک پرامن و مطمئن معاشرہ لازمی ہے۔ اسی بناء پر جو انقلابی اقدامات نظر آ رہے ہیں ان کا حدف صاف اور واضح ہے۔اس وقت بھی حالت جنگ میں ہونے کو باوجود جو سکون اور اطمینان نظر آ رہا ہے وہ انہی پالیسیوں کے مثبت اثرات ہیں۔

ان تمام مقاصد کے حصول کیلئے جو معاشی وژن دیا گیا اس میں خود انحصاری اور غیرروایتی معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط فوج کا قیام بھی ہے جو مضبوط اور قابل اعتبار معیشت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کی سعودی عرب نے 2000 ارب ڈالر کا ایک ایسا فنڈ تیار کیا ہے جس کا مقصد ملک کے اندر اور ملک سے باہر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا ہے۔وژن 2030 ایک ایسا ہی مستقبل کے چیلنجز کا ابھی سء ادراک کر کے تیاری کرنے کے عزم کا عملی پروگرام ہے۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف عالمی سرمایہ کاروں کا سعودی معیشت پر اعتبار بڑھا ہے اور انہوں نے وہاں نئی سرمایہ کاری کی ہے بلکہ ملکی سٹاک مارکیٹ بھی مستحکم ہوئی ہے اور اس کا سٹیٹس اپ گریڈ ہونے کے بعد اب جلد ہی وہ دنیا کی بڑی سٹاک مارکیٹس کے ساتھ کھڑی ہونے جارہی ہے۔

گذشتہ برس سعودی عرب نے آرامکو کے کچھ شیئرز فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے انہیں فوری طور پر 100 ارب ڈالر ملنے کی توقع تھی تاہم اس عمل میں تاخیر کے سبب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ مالی دباو ختم ہونے کے بعد شائد سعودی عرب اس فیصلہ کو تبدیل کر دے۔ اگرچہ سعودی وزیر پٹرولیم نے اس کی تردید کرنے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ یہ آئی پی او (Initial Public Offerings) کا عمل مکمل کیا جائے گا تا ہم یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کی سعودی معیشت کسی بھی دباؤسے باہر نکل گئی ہے۔ سعودی عرب کی معیشت کا یہ استحکام نہ صرف ساری دنیا کے مسلمانوں کیلئے اطمینان کا سبب ہے کی ایک مضبوط معیشت اور طاقتور ہوتی فوج کے ساتھ حرمین شریفین کا تحفظ اور خدمت قابل اعتماد ہاتھوں میں ہے ساتھ ہی پاکستان سمیت دنیا کے مسلمانوں کیلئے کاروبار سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے لامحدود مواقع پیدا کر رہا ہے۔

اور ایک ایسے دور میں جب دنیا کی ساہوکارانہ اور ظالمانہ بنیادوں پر قائم معاشی نظام ناکامی کے بعد متبادل نظام کی تلاش میں ہے۔اور مسلمانوں کیلئے کھلے کاروبار کے مواقع محدود ہیں ایسے میں مسلم دنیا خصوصا سعودی عرب میں کاروبار اورتجارت کے نئے دور کا آغاز غیر معمولی ہے۔پاکستان سے سعودی عرب کو پیشہ ورانہ افرادی قوت کے علادہ گندم چاول و دئگر اجناس کے علاوہ بہت کچھ درکار ہے۔ اب ہمیں بھی روایتی مزدوری والے مائنڈسیٹ سے باہر نکل کر بینکنگ، فائینانس لیزنگ، مینوفیکچرنگ اور اسی طرح کے دیگر اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی فوائد سمیٹنے کے یہ مواقع سی پیک کی پس منظر میں اب لامحدود ہو چکے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی نئی حکومت سے ہونے والے بار بار رابطوں میں سعودی قیادت نے بھی یہی پیغام بھیجا ہے کہ تعلقات اور کاروبار کے نئے دور کے آغاز پر سعودی حکومت پاکستان کو خوش آمدید کہتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے