ٹیکنوکریٹ دانشوروں کا المیہ

برصغیر میں مولانا ابو الکلام آزاد ملی سیاست اور مذھبی دانش کا غیر معمولی امتزاج تھے، شورش کاشمیری نے انہیں کئی دماغوں انسان کہا تھا، اسی کئی دماغوں کےانسان نے کہا تھا کہ سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا، لیکن قوم میں تبدیلی کی روح پھونکنے کے لیے میں جو مسالہ استعمال ہوا اس کے بعد کچھ عرصہ سے کہا جانے لگا تھا کہ اب اس کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی، اب لگتا ہے کہ نئے پاکستان کی تعمیر کے بعد سیاست کو تاریخی و سماجی شعور سے بھی اب ہاتھ دھونے پڑ جائیں گے،

حالانکہ اتنی بات درست ہے کہ بسا اوقات سیاست کی رضیہ کو معروضی حقائق کی بے رحمی، دوراں کی نیرنگی اس بری طرح رسوا کرتی ہے کہ اس کی جان خلاصی کرنے کے لیے اہل سیاست کو ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جس کی معقولیت کا ادراک وقتی جذبات نہیں کرسکتے، نیز خود جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں ہوں تو دارورسن کی آزمائشوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ سیاست کے سینہ میں دل میں نہیں ہوتا، اسی طرح تخت گرانے اور تاج اچھالنے کا انقلابی ترانہ گلی محلوں کے لونڈوں کو سنا کر گرما دیا جائے تو بڑے چھوٹوں کی تمیز گم ہوتی ہے، اختلاف کا سلیقہ اور مخالفت کا قرینہ فراموش ہوجاتاہے، تب سیاسی مکالمہ میں کژدم بکھرتے اور اژدر پنکھار نے لگتے ہیں، تحریکوں میں پیدا ہونے والا ابال شرافت کے منڈیروں میں حیا کی آنکھ جکھا دیتا ہے۔

تویہ گزارن تو سیاست میں گزرتی ہے کہ لمحہ موجود کا جبر اس کے سینہ میں دل کو پتھر کرسکتا ہے، جذبات کو یورش اس کی حیا پر ڈاکہ ڈال سکتی ہے، اس پر بھی فکر کو رونا اور دانش کو گریہ کرنا چاہیے، مگر سماج اور تاریخ کے شعور کے بغیر سیاست کی تفہیم کی کونسی کل ٹھیک بیٹھ سکتی ہے،

مگر یہی تو وہ خواب ہے جیسے طاقت کے مراکز عملی جامہ پہنانے میں لگے رہتے ہیں کہ سیاست کو سماج اور تاریخ کے بہتے دھارے سے کاٹ کر صرف ایک جزیرہ میں کھڑا نخلستان بنادیں کہ جسمیں مہاجن صرف پیدوار کی آمد و خرچ کا حساب رکھیں، اورمکھیا کو اس کا خراج بروقت ادا کرسکیں،

سیاست صرف آمدوخرچ کا حساب رکھنے کا نام نہیں، بلکہ یہ سوال اسکی بنیاد ہے کہ اس میں حق حکومت کس کو ہے، اس اصل اصول کو طیے کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا، یہ بات درست ہے کہ عوام کے لیے طے شدہ حق حکمرانی کے حصول کے لیے ظالم و جابر طاقتوں سے دوبدو لڑائی میں جو کشت وخون ہوتا ہے اس سے محفوظ رہنے کی خاطر ہر ممکن صورتیں اختیار کی جانی چاہیں، مگر فکری مزاحمت اوراس کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا تو دانش کے محاذوں کی ذمہ داری ہے،

مگر ہمارے ہاں ‘علم سیاسیات’ کو قرار واقعی اہمیت کبھی حاصل ہی نہیں  رہی بلکہ "ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی” والا معاملہ ہے، جبکہ سیاست پر لب کشائی کے لیے ضروری ہے کہ عہد رواں کی سیاست کے مبصروں نے خود تاریخ کے اتار چڑھاؤ کو محسوس کیا ہو،  سماج کی تشکیلی عوامل کو بروئے کار آتے ہوئے دیکھا ہو، معاشرہ میں بطور فرد انہیں زور و زبردستی کی منطق سے پالا پڑا ہو، مگر بعض دانشوروں کا جنم ہی پچیس چھبیس جولائی کی درمیانی رات کو ہوا ہے، ان کا خیال ہے کہ اب نئے پاکستان میں گملوں میں اگی بیلوں سے کٹھے میٹھے دانے چنے جائیں، انقلابی قیادت کا زمہ صرف نالیوں پہ چونا پھروانے تک محدود رہے، سول ملٹری ریلشن شپ کی باپردہ تعبیر سے حق حاکمیت کی بحث کی ہر برہنگی چھپا دی جائے، اس بارے حکومتوں سے سوال ہی نہ ہو، گویا ملک چلانا ساس بہو کا جھگڑا ہوگیا، بہو کو کہا جائے کہ خاندان کے پرم پرا کے لیے ساس کی خدمت کو شعار کرے، بچوں کو کھانا اور شوہرنامدار کو بروقت آرام دے، لیکن دیگر معاملات میں دخل نہ دے،

یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ خارجہ امور اور دیگر داخلی معاملات میں پالیسی سازی صرف انا کی جنگ نہیں کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ناک نیچی کرکے گزار کرلیا جائے، ہر ملک کے خارجی تعلقات حکومتوں کا رخ طے کرتے ہیں اور اس کی معاشی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہمارے ملک خداد میں تو یہ چکی کا پاٹ ہے، یہ سادہ لوحی ہے کہ خارجہ پالیسی سے دستکش ہوکر کوئی حکومت اپنی معاشی ترجیحات قائم کرسکتی ہے، دنیا سے تجارت کرنے جانا ہے تو

اس سوال کا جواب بھی دینا ہے کہ ملک کے فلاں گوشوں میں دھماچوکڑی کیوں مچائی جارہی ہے، ملک کے اندرونی بےشمار ایسے پروجیکٹس ہیں جن میں منتخب حکومتوں کو مجبور کیا جاتا کہ وہ عوامی امنگوں کے بجائے کچھ خاص اداروں کا مفاد مقدم رکھیں، ریلوے کے موجودہ وزیر کے تازہ بیانات اس کی گواہی دیتے ہیں، ہمارے ہیلی کاپٹر کو چنکچی رکشہ سے سستہ باور کرنے والی نئی نویلی حکومت غیرملکی دوروں سے مفر ملکی خزانہ کے غم میں نہیں بلکہ اس لیے اختیار کر رہی ہے تاکہ وہ ان سوالات کا سامنا ہی نہ کرے جس کے بارے  جوابات دینے کی اس کی اوقات ہی نہیں۔

نئے پاکستان کی بنیاد اسی "خشت کج” پر رکھی گئی ہے کہ اہل سیاست ملک چلانے کی حقیقی استعداد سے محروم ہیں، ” اہم معاملات” ان کے سپرد نہیں کیے جاسکتے، کس سے دوستی نبھانی ہے کیسے دغا دینا ہے، ملک کی سمت کیا ہو یہ طے کرنا ان ‘نااہلوں’ کے بس ہی میں نہیں، مگر چونکہ رسم ہے کہ جمہوریت کا لیبل نہ لگا ہو تو دنیا منہ نہیں لگاتی نیز اگر عوام کو ٹرک کی بتی پیچھے لگا لیا جائے تو کاروبار مملکت چلانے میں آسانی رہتی ہے، اس لیے ایک عدد وزیراعظم اور کچھ وزیر بھی ہوں تو ماحول خوشگوار رہتا ہے، یہی سوچ کر کسی ‘ابو الہوس’ کو تلاش کرکے اس سنگھاسن پہ بیٹھایا جاتا ہے تاکہ وہ آقاؤں کا نمک حلال رہے، اور طاقت کے مراکز کو بھی اپنے مفادات برلانے میں مشکل نہ ہو، بس بات اتنی سی ہے کہ کاٹھ کا الو، گگو گھوڑا، کاغذ کی نیا ، موم کی ناک، پانی کی پستول، بھس بھرا شیر اور پلاسٹک کا بلا جیسی "تبدیلیاں”صرف تماشا دیکھانے کے کام آتی ہیں،

ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا

افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ مطالعہ پاکستان کے دسویں پاس لونڈوں کے بعد اب ہمیں ایک اب ہمیں فارغ نورتنوں کی ایسی دانش کا بھی سامنا کرنا ہوگا جو بابنگ دھل اس کی ترغیب دے کہ حکومتوں کو ادراوں کے پیوستہ مفادات کی طرف ایک نگاہ غلط انداز بھی نہیں ڈالنی چاہیے، بلکہ ‘سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے ‘ کی چلتی پھرتی تصویر بنے رہنا چاہیے، اس کشتہ سلطانی سے ہمیں اس کے علاوہ کی توقع بھی شاید عبث ہے، ویسے بھی اہل ستم کے دم قدم کا زمانہ ہے۔

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے