چلوچلو سعودیہ چلو (تیسری وآخری قسط)

ایک اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان کی نئی حکومت کی سعودیہ کے حوالہ سے پالیسی کیا ہے اور امکانات کیا ہیں؟ یہ سوال اس پس منظر میں اور بھی اہم ہے کہ عمران خان کے آس پاس ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو نہ صرف سعودیہ کے حوالہ سے نہایت متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں بلکہ اپنے تعصب میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ سعودی عرب کا نام سننا تک گوارا نہیں کرتے۔ ایسا تاثر مختلف وجوہات کی بناء پر پیدا ہو جس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف میں انتخابات سے قبل ہونے والی لام بندی میں پیپلز پارٹی سے بہت سے لوگ بھرتی ہوئے جن میں سے ایک بڑی تعدادجبری بھرتی کی تھی۔

یہ ایک مخصوص ذہن اور محدود سوچ رکھنے والے لوگ تھے جن میں سے بعض کامیاب بھی ہوئے اور اپنی پرانی پارٹی کی طرح وہ سعودی عرب کے بارے میں ایک اٹل رائے رکھتے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ ان کے سعودیہ کے بارے میں مخصوص Narrativeکو وزیراعظم عمران خان بھی تسلیم کر لیں اور اسی کے مطابق عمل کریں۔تاہم عمران خان نہایت ذہین انسان ہیں اور معاملہ فہم بھی۔ کمزوریاں کچھ اور ہیں یہ والی نہیں ہیں ۔ انہیں اس صورتحال کا اچھی طرح ادراک ہے۔

وزیراعظم بننے کے فورابعد انہیں پرنس سلمان نے فون کیا اور سب سے پہلے سعودی سفیر ملاقات کیلئے تشریف لائے۔ اس پہلے ہفتہ میں کل 5 بار رابطہ ہوا جس میں سعودی بادشاہ شاہ سلمان کا دو بار رابطہ ہوا اور دو بار ہی شہزادہ محمد نے رابطہ کیا۔ یہ بار با ر کے رابطے اس بات کا ثبوت ہیں کی سعودی حکمران کس طرح پاکستان اور یہاں کی عوام سے محبت کرتے ہیں اور کس طرح باہمی تعلقات کو ہر شعبہ میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا ہے۔

اب عمران خان کے آس پاس کئی لوگ ایسے ہیں جو اس کام میں ان کے مددگار ہو سکتے ہیں۔ خود ان کی کابینہ کے کم از کم دو ارکان ایسے ہیں جن کے پہلے سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ پہلے تو بابر اعوان ہیں جو عربی زبان میں قادر الکلام ہونے کے ساتھ ساتھ اس صلاحیت کو دلوں کو جیتنے کیلئے کامیابی سے استعمال کر چکے ہیں۔ سعودی ان کا حترام مختلف وجوہات سے کرتے ہیں جن میں ایک بڑی وجہ ان کے صاف ستھرے دینی عقائد اور اصول دین کا بہترین فہم ہے۔

دوسرے فوادچوہدری ہیں جن کے بھائی اور چچا آج بھی دیار حرم میں کاروبار کیلئے مستقل موجود ہیں۔ چوہدری شہباز جو مشرف کی حکومت میں وزیر بھی رہے نہایت پکے پاکستانی اور سچے مسلمان ہیں اور یہی انہوں نے اپنے بچوں کو گھول کر پلایا ہے۔ ویسے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہی کافی تجربہ کار ہیں مگر ان دوحضرات کی صلاحیتیں بھی وزیراعظم کو میسر ہیں۔ وزیراعظم کو اگر یاد ہو تو رمضان المبارک میں عمرہ کی ادائیگی کے دوران اردو نیوزجدہ سے انٹرویو کے دوران زلفی بخاری اور عون چوہدری کس طرح پریشانی کا شکار رہے کہ مجبورا انٹرویو سے اٹھ کر چلے گئے۔

پچھلی ایک پوری دہائی میں آنے والی دوحکومتوں نے اس حوالہ سے مجرمانہ کردار ادا کیا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے سوائے دھوکہ بازی کے اور کوئی کام نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کی سعودی عرب کے ساتھ دو طرفہ تجارت تباہ ہوگئی۔ 447 ملین ڈالر کی ایکسپورٹس کم ہو کر محض 25ملین ڈالر(محض اٹھارہ ارب روپے) تک آ چکی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ہماری آئل کی درآمدات بڑھ کر ایک سو اٹھاسی ارب روپے ہوئی ہیں۔ یعنی وفاقی شماریاتی ادارہ کے مطابق امپورٹس ایکسپورٹس کے مقابلہ میں دس گنا کم ہیں۔ اب یہ پاکستان کی اہم ترین معاشی ضرورت ہے کی ہمارا تجارتی خسارہ کم سے کم کیا جائے۔اور اس خسارہ کو کم کرنے کیلئے سعودی عرب ہر طرح تیار ہے۔

حد یہ ہے کی انتخابات سے قبل ہی اسلامک ڈویلپمنٹ بنک نے پاکستان کیلئے 4.5 ارب ڈالر کی کریڈٹ لائن بغیر مانگے منظور کر دی اب یہ کس کو پتہ نہیں کہ آئی ڈی بی کی پالیسی سازی کون کرتا ہے؟یہ وزیراعظم کے اقتدار سنبھالتے ہی وہ تحفہ تھا جو برادر ملک سعودی عرب نے پاکستان کو دیا اور اسے جتایا بھی نہیں۔ اور اسی سعودی و چینی اعلانات کی بدولت ہوا میں اڑتے دالر کے ریٹ کو لگام لگی وگرنہ یہ شنید تھی کہ یار لوگ اس ڈالر کو 150 سے 160روپے تک لیجانا چاہتے تھے۔ اس وقت پاکستان کی مجموعی برآمدات میں سعودی عرب کا حصہ محض% 1.31ہے۔

یہ درست ہے کی پاکستان برادر ملکوں کے ساتھ تعلقات میں ایک دوسرے کی ناراضگیوں یا ٹکراو میں فریق بننے کے بجائے مصالحتی کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتا ہے مگر پاکستان کی نئی حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کون سا ملک ہے جو عملی مدد کرتا ہے اور کون سا ملک ہے جو پیٹھ میں چھرا گھونپتا رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو کو کور دینے والا کون تھا ؟اور اس کے خفیہ کیا معاملات ہیں؟ اس پر کسی اور وقت تفصیل سے بات ہو گی مگر سر دست سمجھنے کی بات یہ ہے کی اگر پاکستان دنیا میں ایک آزاد باوقار وخودمختار ملک کے طور پر کھڑا ہونا چاہتا ہے تو اسے قابل اعتماد دوستوں اور بھائیوں پر اعتماد کر کے ان کے ساتھ برابر کے کاروباری رابطے بڑھانے ہوں گے۔ قرض اتارنے اور کشکول توڑنے کا ایک باعزت طریقہ کما کر پیسے لوٹانے کا بھی ہے اس کیلئے سعودی عرب کے دروازے کھلے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے