جلال الدین حقانی، امریکی اثاثہ سے امریکی دشمن تک

سوویت یونین کےافغانستان پر تسلط کے دوارن امریکی ادارے سی آئی اے کے سب سے قیمتی اثاثہ تصور کیے جانے والے جلال الدین حقانی طویل علالت کے بعد وفات پا گئے ہیں۔

سوویت یونین کے تسلط کے خلاف لڑنے والوں کو جب صف آرا کیا جا رہا تھا تو جلال الدین کو اس وقت امریکی ادارے سی آئی اے کا ایک قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا تھا لیکن نیٹو افواج کی افغانستان آمد کے بعد ان کا شمار امریکہ کے بڑے دشمنوں میں کیا جاتا تھا جن کی سروں کی قمیت مقرر کی گئی تھی۔

حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے تھا اور ان کی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جائیدادیں تھیں جو شاید اب بھی ہیں۔ انھوں نے سنہ انیس سو اسی کی دہائی میں شمالی وزیرستان سے سابقہ سویت یونین کے افغانستان میں قبضے کے دوران منظم کارروائیاں کیں۔

جلال الدین حقانی کا شمار پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے پسندیدہ کمانڈروں میں ہوتا تھا جو یہ فیصلہ کرتا تھا کہ کس کمانڈر کو سابقہ سویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے کتنے فنڈز اور ہتھیار درکار ہیں۔

جلال الدین حقانی کا گروپ مشرقی افغانستان کے علاقے پکتیکا سے ننگر ہار تک پورے طور پر مؤثر اور متحرک ہے اور اسے جنگجو گروپوں کا ’گاڈ فادر‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔

جلال الدین حقانی ایک عشرے سے اپنے گروپ کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کے حوالے کر چکے تھے۔

سوویت یونین کے افغانستان سے نکلنے کے بعد حقانی گروپ متحرک رہا اور نیٹو افواج کی افغانستان آمد کے بعد حقانی گروپ کو افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر مہلک حملوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔

اگرچہ پاکستان اور مغرب میں متعدد افراد جلال الدین حقانی کو آئی ایس آئی کا اثاثہ سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کی فوج اس کی تردید کرتی رہی ہے۔

تاہم دفاعی تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ حالیہ برسوں میں آئی ایس آئی کی حقانی نیٹ ورک پر گرفت کمزور پڑ گئی ہے۔

حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی سنہ دو ہزار ایک کے آخر میں اسلام آباد کے آخری سرکاری دورے پر آنے والے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب امریکہ نے افغانستان کے خلاف جنگ شروع کی۔

اس کے بعد حقانی اسلام آباد میں روپوش ہو گئے اور کئی مہینوں کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان میں سامنے آئے جہاں انھوں نے مغربی طاقتوں کے خلاف شدت پسندوں پر مشتمل ایک مزاحتمی گروپ تشکیل دیا۔

اس کے بعد سے اب تک اس گروپ نے جتنا نقصان مغربی افواج کو پہنچایا ہے شاید کسی اور گروپ نے نہیں پہنچایا۔

اکتوبر سنہ دو ہزار ایک میں جب امریکہ نے افغانستان میں بمباری شروع کی تو ہزاروں کی تعداد میں عرب اور سینٹرل ایشیا کے جنگجوؤں نے پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کا رخ کیا۔

پاکستانی فوج کی جانب سے ان جنگجوؤں کی پاکستان آمد کو روکنے کے لیے نیم دلانہ کوششوں کی وجہ سے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں سنہ دو ہزار دو اور چار میں پرتشدد تصادم کا آغاز ہوا جن میں سینکڑوں سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔

جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین نے سنہ دو ہزار چھ میں جنوبی وزیرستان کے احمد زئی اور وزیر قبائل کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا اور ان کی کوششوں سے متعدد قبائل یکجا ہوئے۔

جلال الدین حقانی کے دو بھائی سنہ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار گیارہ کے دوران حقانی نیٹ ورک اور تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان امن معاہدے کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے