اصل چیلنج

کسی ملک کے لئے اس سے بڑی آزمائش اور بدقسمتی اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ بڑی طاقتوں کی پراکسی وار کا میدان بن جائے ۔ افغانستان اس لئے تباہ وبرباد ہوگیا کہ وہ سوویت یونین اور امریکہ یا پھر پاکستان اور ہندوستان کی پراکسی وار کا میدان بن گیا۔ یمن کو دیکھ لیجئے ۔ اس لئے تباہ ہوگیا کہ ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار وہاں برپا ہوئی۔

شام کی حالت ملاحظہ کیجئے ۔ تباہی سے اس لئے دوچار ہوا کہ پہلے ایران و سعودی عرب اور پھر امریکہ و سوویت یونین کی پراکسی وار کا میدان بن گیا۔ الحمدللہ پاکستان ، افغانستان ہے، شام اور نہ یمن ۔ پاکستان ، پاکستان ہے ۔ بیس کروڑ سے زائد انسانوں کا ایٹمی پاکستان ۔ مذکورہ ممالک سے پاکستان یوں بھی مختلف ہے کہ وہاں پر آمریتوں یا بادشاہتوں کے برعکس پاکستان میں کنٹرولڈ اور لولی لنگڑی سہی لیکن بہر حال جمہوریت ہے ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان اس وقت دو بڑی (امریکہ اور چین) اور دو علاقائی یعنی سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کا مرکز بنتا جارہا ہے ۔یہ بات اب امریکی چھپارہے ہیں اور نہ چینی کہ اقتصادی اور اسٹرٹیجک حوالوں سے ان کی جنگ برپا ہے اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ان دونوں کی جنگ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ پاکستان بن گیا ہے ۔ اقتصادی میدان میں چین امریکہ کو چیلنج کرنے لگا ہے جبکہ اب امریکہ نے بھی اس میدان میں جوابی اور جارحانہ وار شروع کردئیے ہیں ۔

تزویراتی میدان میں امریکہ ایک طرف افغانستان میں قدم جما کر چین کی نگرانی کرنا چاہ رہا تھا اور دوسری طرف جنوبی چین کے ساتھ لگے سمندر میں مقامی پراکسیوں کی مدد سے اس کے راستے میں بیٹھ گیا تھا۔ گوادر بندرگاہ تک رسائی دے کر پاکستان نے چین کا سمندر کے معاملے میں مسئلہ حل کردیا ۔ اب اگر امریکہ کسی وقت اپنے مقامی اتحادیوں کے تعاون اور بحری بیڑوں کی مدد سے سائوتھ چائنا سی (South China Sea) میں ناکہ بندی کی کوشش کرے بھی تو چین کے پاس گوادر کی صورت میں سمندر تک رسائی کا متبادل روٹ موجود رہے گا۔

اسی طرح امریکہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں اگر وہ قدم نہیں جما سکا اور چین کی نگرانی کے خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کی بجائے الٹا اس کے تعاون کا محتاج ہوگیا ہے تو اس کی وجہ بھی پاکستان ہے کیونکہ امریکیوں کی سوچ کے مطابق پاکستان نے اس کے ساتھ افغانستان میں حسب توقع تعاون نہیں کیا ۔ چنانچہ جہاں امریکی ماضی میں پاکستان کو خطے میں اپنے پراکسی اور اتحادی کی نظر سے دیکھتے تھے ، اب چین کے پراکسی اور اپنے اسٹرٹیجک مخالف کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں ۔ دوسری طرف چینی ماضی میں پاکستان کو صرف انڈیا کے تناظر میں اپنا معتمد اتحادی سمجھتے تھے لیکن اب وہ اسے امریکہ اور انڈیا کے ساتھ اپنی جنگ کے لئے فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طو رپر بھی دیکھنے لگے ہیں ۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں صرف پاکستان کے دشمن سرگرم عمل رہتے تھے لیکن اب چین اور سی پیک کے دشمن بھی وہاں سرگرم عمل ہوگئے ہیں ۔

اسی طرح ماضی میں افغان سرزمین کو صرف پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب وہاں چین مخالف قوتیں بھی سرگرم عمل ہوگئی ہیں اور دونوں میں اتحاد بھی نظر آرہا ہے ۔اسی طرح ماضی میں چینی پاکستان اور افغانستان کے اندرونی حالات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے لیکن اب وہ ان دونوں ممالک کی اندرونی صورتحال سے متعلق بھی اتنے متفکر رہتے ہیں جتنے کہ خود اپنے ملک سے متعلق رہتے ہیں۔ گویا کچھ عرصہ قبل تک پاکستان چین اور امریکہ کے مابین پل تھا لیکن اب وہ دونوں کی جنگ یا کشمکش کا میدان بنتا جارہا ہے ۔ دوسری طرف ماضی میں اگر امریکی پاکستان کو خطے میں اپنا اتحادی اورا سٹرٹیجک اثاثہ سمجھتے تھے تو اب پاکستان کے مقابلے میں اس نے یہ حیثیت ہندوستان کو دے دی ہے ۔ جو کردار ماضی میں سوویت یونین کے مقابلے میں پاکستان نے ادا کیا تھا ، امریکیوں نے چین کے خلاف اس کردار کے لئے ہندوستان کو چن لیا ہے ۔دوسری طرف پاکستان کا مخمصہ یہ ہے کہ ایک تو چین ابھی تک عالمی سطح پر پوری طرح امریکہ کا متبادل نہیں بنا ۔

نہ تووہ عالمی سفارتی محاذ پر پاکستان کی وہ مدد کرسکتا ہے جو امریکہ کرتا رہا اور نہ اقتصادی محاذ پر ۔اسی طرح امریکہ کے ساتھ پاکستان کا تنائو تومخاصمت میں تبدیل ہوگیا ہے لیکن خود چین اس حد تک امریکہ کے ساتھ مخاصمت بڑھانے سے گریز کررہا ہے اور ہنوز پاکستان کو بھی اس کا مشورہ یہی ہے کہ امریکہ سے بنا کے رکھو۔ گویا پاکستان کا معاملہ بڑی حد تک مدعی سست گواہ چست والا ہے ۔ چین امریکہ کے ساتھ بھی تجارت کررہا ہے اور ہندوستان کے ساتھ بھی لیکن پاکستان کا معاملہ بلیک اینڈ وائٹ میں چل رہا ہے ۔اسی طرح ہندوستان اس تیزی کے ساتھ روس سے دور نہیں گیا جس تیزی کے ساتھ وہ امریکہ کے قریب گیا ہے ۔

ہم نے امریکہ پر واضح کر دیا کہ اب ہمارا رخ اس کی بجائے روس اور چین کی طرف ہے لیکن اس رفتار کے ساتھ ان دونوں کے ساتھ معاشی اور دفاعی حوالوں سے اپنے تعلقات اس قدر مضبوط نہیں کرسکے ، جس قدر ہونے چاہئیں تھے۔ اسی طرح روس امریکہ کا مخالف ضرور ہے لیکن خطے میں وہ اب بھی پاکستان سے زیادہ ہندوستان اور ایران کے قریب ہے ۔ خطے کی سطح پر چین، روس اور امریکہ کے گیم میں ایران ہمارا اتحادی ہوسکتا تھا لیکن برادر عرب ملک کی وجہ سے پاکستان اور ایران کی وہ قربت نہیں جو ہونی چاہئے بلکہ تادم تحریر ایران ، پاکستان کی نسبت ، ہندوستان کے زیادہ قریب ہے ۔

مذکورہ تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت پل صراط پر سفر کررہا ہے اور معمولی سی بے احتیاطی بھی بڑے نقصان کا موجب بن سکتی ہے ۔ دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ پاکستان داخلی طور پر تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے اور جو قیادت لائی گئی ہے ، وہ مذکورہ حوالوں سے ناتجربہ کار بھی ہے اور خارجہ پالیسی کبھی ا س کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں رہی ۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ چینی صدر کے دورے اور سی پیک کے معاملات پر پی ٹی آئی کا جو رویہ رہا ہے ، اس کی وجہ سے چینی قیادت شاکی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ چینی صدر کی بجائے پاکستان کے نئے وزیراعظم کو صرف وزیراعظم کے فون پر اکتفا کیا گیا ۔ نیازی حکومت نے سی پیک کے منصوبوں سے متعلق وفاقی کابینہ کی سطح پر جو فیصلہ کیا ، اس سے متعلق یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ چینی اس پر خوش نہیں ہوں گے ۔

اب اگر امریکہ بھی برہم ہو، ہندوستان کے ساتھ مل کر وہ مزید دبائو بھی بڑھادے اور دوسری طرف چین کے ساتھ قربت اور تعاون کا سفر بھی سست پڑ جائے تو خاکم بدہن پاکستان تو بہت بری طرح پھنس جائے گا۔ یہی وہ تناظر ہے جو نئی حکومت کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ بہر حال جو ہونا تھا ہوچکا ہے لیکن اب ہونا یہ چاہئے کہ نئی حکومت کی ان معاملات کی طرف خصوصی توجہ دلائی جائے ۔ وزیرخارجہ کے لئے شاہ محمود قریشی ہی موزوں ترین تھے ۔ نئی حکومت کی ٹیم میں وہ واحد شخص ہیں جو ان نزاکتوں کو سمجھتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی قیادت کو چیلنج نہیں کرسکتے ۔ مختصر عرصے میں پہلے ہندوستانی وزیراعظم کے رابطے کو احمقانہ طریقے سےڈیل کیا گیا اور پھر امریکی سیکرٹری خارجہ کی ٹیلی فون کال کا تنازع کھڑا کردیا گیا ۔ تب تک تو یہ رعایت دی جاسکتی تھی کہ چلیں بندہ نیا ہے اور ابھی پوری طرح بریفنگ نہیں ہوئی لیکن افسوس کہ جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے گزارنے اور خارجہ امور سے متعلق تفصیلی بریفنگ لینے کے بعد بھی اگلے روز اینکرپرسنز کی موجودگی میں فرانسیسی صدر کی فون کال کا احمقانہ ڈرامہ بن گیا۔

فرانسیسی سفارت خانے نے واضح کردیا کہ رابطہ صرف ان کی طرف سے ہوا تھا اور اس وقت صدر کی کال نہیں آئی تھی بلکہ صدر کی کال کے لئے وقت اور طریق کار کے تعین کے لئے پاکستانی دفتر خارجہ کو کال کی گئی تھی لیکن وہاں یہ ظاہر کیا گیا کہ جیسے فرانسیسی صدر کی کال آرہی ہے اور وہ ان سے بات نہیں کررہے ہیں ۔ ظاہر ہے اس طرح کی حرکتیں باہر کے ممالک اور ان کے سفارتخانے اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ ہم دعا گو ہیں اور توقع کررہے ہیں کہ نئے پاکستان کی پرانی قیادت ،نئے وزیراعظم کو سفارتی نزاکتیں بھی سمجھادےگی کیونکہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر سوال یہ ہے کہ کیسے چلے گا اور کب تک چلے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے