کیا مسلمانوں پر عالمی اقتدار کا دروازہ بند ہو گیا؟

ہمارے اہلِ مذہب بھی، اندازہ ہوتا کہ اخلاقیات کو، غیر مذہبی یا لبرل لوگوں کی طرح، ایک موضوعی (Subjective) معاملہ ہی سمجھتے ہیں۔

اخلاقیات کے باب میں انسانوں نے، بالعموم دو طرح کے تصورات کو قبول کیا ہے۔ ایک مذہبی تصور جو اخلاقیات کو عالمگیر سمجھتا اور اس کا ماخذ انسانی فطرت کو قرار دیتا ہے۔ الہامی تعلیمات کے مطابق خیر و شر کا شعور فطری ہے اور انسانی فطرت غیر متبدل ہے۔ پیغمبر اسی کو اپنا مخاطب بناتے اور ایک تصورِ اخلاق کی آبیاری کرتے ہیں۔ انسان تمدنی ارتقا سے گزرتا ہے مگر اس کے اخلاقی وجود میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آتی۔ انسان آج کا ہو یا چند صدیاں پرانا‘ مشرق کا ہو یا مغرب کا، اس کی اخلاقی ساخت ایک ہی ہو گی۔

غیر مذہبی نظریہ، اخلاقیات کو ایک موضوعی معاملہ قرار دیتا ہے۔ وہ انسانی فطرت کو غیر متبدل نہیں سمجھتا۔ اس کے مطابق انسانی اخلاقیات کا ماخذ داخل میں نہیں، خارج میں۔ انسان کا سماجی ماحول اس کے تصورِ اخلاق کی صورت گری کرتا ہے۔ اس لیے اخلاقی تصورات عالمگیر نہیں ہوتے۔ یہ زمان و مکان کے تابع ہیں۔ چند صدیاں پہلے انسان جس نظامِ اخلاق کا قائل تھا، لازم نہیں کہ آج بھی اسی کو درست سمجھتا ہو۔ مشرق کے اخلاقی تصورات مغرب سے مختلف ہیں۔ اخلاقی تعلیمات میں تنوع ہو سکتا ہے اور سب اپنے اپنے ماحول میں درست ہو سکتے ہیں۔ گویا اخلاقیات عالمگیر اور معروضی نہیں، مقامی اور موضوعی معاملہ ہے۔

ہم ایک مذہبی معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس تصورِ اخلاق کو قبول کیا گیا ہے‘ جو مذہب کی دین ہے۔ مثال کے طور پر مرد و زن کے تعلقات کے باب میں، ہمارے ہاں مغرب کے تصورِ اخلاق کے لیے، کم از کم نظری سطح پر کوئی جگہ نہیں۔ میرا مشاہدہ مگر یہ ہے کہ یہ نظری سطح تک ہی ہے۔ عملاً ہم اخلاق کو غیر مذہبی تصور کی طرح، ایک موضوعی معاملہ ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارا تصورِ اخلاقیات ہماری خواہشات کے تابع ہے اور ہم اس پر شاد ہیں۔ ہم الفاظ کو اپنی ضرورت کے مطابق ایک مفہوم دیتے ہیں اور اس میں کسی عالمگیریت کے قائل نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر دیانت کا تصور ہے۔

عام خیال یہ ہے کہ دیانت کا تعلق صرف روپے پیسے کے ساتھ ہے۔ اگر کسی کی شہرت یہ ہو کہ وہ مالِ حرام سے گریز کرتا ہے تو اسے دیانت دار سمجھا جاتا ہے۔ زندگی کے دوسرے معاملات کا دیانت سے کوئی واسطہ نہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو بقلم خود ہمیں اکثر یاد دلاتے رہتے ہیں کہ انہوں نے عمر بھر ایک ٹکے کی خیانت نہیں کی۔ اس کے بعد، اب ان کی دیانت پر شک کا کوئی جواز نہیں۔

اس میں کیا شبہ ہے کہ مالی معاملات میں دیانت ایک بڑی خوبی ہے لیکن دیانت کے مطالبات یہاں تمام نہیں ہوتے۔ دیانت کی ایک اہم قسم ‘علمی دیانت بھی ہے۔ اس کی بہت اہمیت ہے کہ آپ واقعات کے بیان میں کتنے دیانت دار ہیں۔ کسی کی طرف کوئی بات منسوب کرتے وقت دیانت کا کتنا مظاہرہ کرتے ہیں؟ اپنے نتائج کے اعتبار سے، علمی دیانت بعض اوقات مالی دیانت سے کہیں اہم ہوتی ہے۔ کسی کی طرف ایک غلط بات منسوب کر کے آپ بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ بہت سی انسانی جانیں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ مالی بد دیانتی کا ارتکاب ممکن ہے کسی ایک فرد کے نقصان کا باعث بنا ہو۔ آپ کی علمی بد دیانتی پورے معاشرے کو خسارے میں مبتلا کر سکتی ہے۔

میرے لیے اس کی سنگینی اُس وقت بڑھ جاتی ہے، جب میں دیکھتا ہے کہ مذہبی لوگ، اس معاملے میں زیادہ تساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے معاملے کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک صاحب الرائے شخصیت تھے اور ان کی رائے سے اختلاف کیا گیا۔ مسئلہ رائے کے اختلاف کا نہیں کہ یہ فطری ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تنقید کی آڑ میں بڑی بڑی مذہبی شخصیات نے ان سے وہ وہ باتیں منسوب کیں جو شاید ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ ہوں۔ اس سے کسی کی دین داری میں کوئی فرق آیا نہ دیانت میں۔

مولانا مودودی نے، اس حوالے سے بارہا اپنے کرب کا اظہار کیا۔ حال ہی میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کے نام اُن کے کچھ غیر مطبوعہ خطوط، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے جریدے ‘تعبیر‘ میں شائع ہوئے ہیں۔ ایک خط میں، ایک معروف علمی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ”… جو کرم فرمائیاں مفتی صاحب نے پچھلے دنوں مجھ پر مسلسل کی ہیں، ان سے شاید آپ واقف نہیں۔ میں ان سب سے با خبر ہوں، اس لیے مجھے ان کے ساتھ، وہ حسنِ ظن اب نہیں رہا، جو پہلے تھا۔‘‘ (شمارہ3 ، جنوری تا جون 2016ئ)۔

میں مولانا کے اس دکھ کو سمجھ سکتا ہوں۔ مجھے بھی آئے دن ایسے تجربات سے گزرنا پڑتا ہے جب حسنِ ظن کا باقی رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دو دن پہلے بھی ایسا ہی تجربہ ہوا۔ ایک صاحب نے اپنے اخباری کالم میں جاوید احمد غامدی صاحب سے یہ بات منسوب کی کہ اب قیامت تک مسلمانوں کے اقتدار کی باری نہیں آئے گی۔ اس پر حاشیہ چڑھایا کہ کیسے ان باتوں سے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سلانا مطلوب ہے اور کیسے طالبان سے خوف زدہ مغرب غامدی صاحب جیسے مفکرین کی مدد لیتا ہے۔ میں نے جب جاوید صاحب کی پوری بات سنی تو معلوم ہوا کہ وہ اس سے بالکل مختلف بات کہہ رہے ہیں۔

ایک تقریب میں جاوید صاحب سے سوال کیا گیا کہ مسلمانوں کو اقتدار کب ملے گا؟ اس کے جواب میں انہوں نے سات آٹھ منٹ کی ایک گفتگو کی۔ انہوں نے چند باتیں اجمالاً کہیں۔ ایک یہ کہ عالمی اقتدار کے باب میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ وہ دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتا ہے۔ طوفانِ نوح کے بعد، آدم کی نسل سیدنا نوحؑ کے تین بیٹوں سے چلی جو دنیا کے مختلف حصوں میں جا آباد ہوئے۔ اللہ نے تبدیلیٔ ایام کے قانون کے تحت، پہلے ایک بیٹے حام کی نسل کو اقتدار دیا‘ جو افریقہ وغیرہ میں آباد تھی۔ پھر یہ اقتدار سام کی نسل کو ملا۔ عرب بھی ان میں شامل تھے۔ اب دنیا کا یہ نظام آخری دور میں داخل ہو چکا اور یہ اقتدار حضرت نوحؑ کے تیسرے بیٹے یافث کی اولاد کو منتقل ہو گیا ہے۔

دوسرا یہ کہ اسلام کسی نسل کا مذہب نہیں۔ یہ ایک عالمگیر پیغام ہے۔ اگر دنیا کی غالب اقوام اسے قبول کر لیں گی تو اسلام پھر غالب آ جائے گا۔ یہ تاریخ میں پہلے بھی ہو چکا۔ عربوں یا مسلمانوںکا اقتدار چنگیز خان کی اولاد کے ہاتھوں ختم ہوا۔ اسی نسل کے لوگ ہمارے بزرگوںکی دعوت کے نتیجے میں مسلمانوں ہو گئے۔ یہ ترک تھے۔ پھر ان کا اقتدار قائم ہوا اور پانچ سو سال تک باقی رہا۔ یہ خلافتِ عثمانیہ کا دور ہے جو ظاہر ہے کہ اسلام کا دور ہے۔

تیسرا یہ کہ آج بھی مسلمانوں کے لیے یہ راستہ کھلا ہے کہ وہ امریکہ جیسی فاتح اقوام کو اسلام کی دعوت دیں جس طرح ان کے اسلاف نے چنگیز خان کی اولاد کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گئے تھے۔ جاوید صاحب کے الفاظ میں مسلمان پوری قوت کے ساتھ اٹھیں اور ان اقوام تک دین کی دعوت پہنچائیں۔ چوتھا یہ کہ موجودہ مسلمان اقوام کے پاس بھی یہ راستہ موجود ہے کہ وہ اپنی تعمیر کریں۔ علم اور اخلاق میں اعلیٰ درجے تک پہنچیں اور یوں ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائیں۔ ملائیشیا اس کی ایک مثال ہے۔

کیا جاوید صاحب کی یہ گفتگو مسلمانوں کو غفلت کی نیند سلا رہی ہے؟ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اقتدار کے دوازے بند ہو گئے؟ اس کے بر خلاف تو یہ باتیں اہلِ اسلام کو امید دلا نے کے ساتھ، انہیں جدوجہد پر آمادہ کر رہی ہیں۔ جاوید صاحب کے براہ راست مخاطب امریکہ میں آباد مسلمان تھے جنہیں وہ ابھار رہے ہیں کہ وہ اس سرزمین میں اسلام کا پیغام، پورے استدلال اور دعوت کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے، عام کریں۔
میں چاہتا ہوں کہ حسنِ ظن قائم رہے مگر اخلاقیات کی وہ تعبیر راستے میں حائل ہے جو اسے موضوعی معاملہ سمجھتی ہے۔ جو دیانت کو پیسے ٹکے تک محدود رکھتی ہے۔ علمی دیانت اس کے نزدیک ضروری نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے