سپریم کورٹ کا جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ڈی جی ایف آئی، انور مجید اور آصف زرداری کے وکیل پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران انور مجید فیملی کے وکیل شاہد حامد اور وکیل اعتزاز احسن نے بھی جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف دلائل دیے جس کے بعد عدالت نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا جن کے ارکان کے ناموں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جے آئی ٹی بنا رہے ہیں جو ہر15 دن میں رپورٹ دے گی جب کہ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو رینجرز کی سیکیورٹی دینے کا بھی حکم دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ان کے پاس مہارت نہیں اس لیے جے آئی ٹی بنارہے ہیں، اگر ملزمان نے کچھ نہیں کیا تو ماہرین سے کلین چٹ مل جائیگی۔

سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے اومنی گروپ کراچی کے دفتر پر چھاپا مارا جس کے دوران کام کراؤن کمپنی دبئی کی دستاویزات ملیں جس کے بعد کمپنی کے دبئی کے دفتر میں چھاپا مارا تو بےشمار فارن کرنسی اکاؤنٹس کا ریکارڈ ملا۔

ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ دبئی کی کمپنی سے ملنے والے اکاؤنٹس بھی انہی کے خاندان (انور مجید فیملی) کے ہیں جب کہ ان اکاؤنٹس میں بھی پہلے اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والے لوگ تھے اور دبئی سے رقم انگلینڈ اور فرانس بھی بھیجی گئی۔

ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق چھاپے کے دوران بہت سی ہارڈ ڈرائیوز بھی ملیں جن میں بہت سا ڈیٹا ہے، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس ایسے لوگ ہیں جو اس ڈیٹا کو چیک کرسکیں جس پر بشیر میمن نے کہا کہ ہمارا سائبر کرائم ونگ اس پر کام کررہا ہے، ڈیٹا بہت زیادہ ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر ہمیں جے آئی ٹی بنانی چاہیے اور جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی بنانے پر کسی کو اعتراض تو نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کسی کو کیا اعتراض ہوگا، ملزمان کو تو کلین چٹ ملنا ہے، اس معاملے سے ملزمان کا تو تعلق ہی نہیں، اس موقع پر انور مجید فیملی کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ہم نے جےآئی ٹی سے متعلق متفرق درخواست دی ہے اسے دیکھ لیں۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ وزیراعلیٰ کی انور مجید کے ساتھ گفتگو بھی موجود ہے، کہا گیا کہ انور مجید وزیراعلیٰ کے گھر پر رہ لیں، آپ باتیں رہنے دیں، ہم مقدمے کو پنجاب منتقل کر دیتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے وکیل سے مکالمے کے دوران کہا کہ ہم جعلی اکاؤنٹس کی پہلے کی گئی تحقیقات کے بجائے جے آئی ٹی سے تحقیقات کرالیتے ہیں، 35 ارب روپے کے فراڈ کا معاملہ ہے، شفاف تحقیقات چاہتے ہیں، آپ شرما کیوں رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم مزید انکوائری کے لیے جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، قوم کا بھی بنیادی حق ہےکہ اس کا لوٹا گیا پیسہ واپس لایا جائے۔

اس موقع پر انور مجید فیملی کے وکیل نے کہا کہ کیس میں سیاسی لوگوں کی شمولیت سے تاثر دیا جارہا ہے جیسےکرپشن کی گئی، ہر سماعت کے بعد میڈیا پر پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، تحقیقاتی ادارےکو عدالت کیسےکہہ سکتی ہےکہ ایسے تحقیقات کریں اور ایسے نہیں۔

وکیل شاہد حامد نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آپ کا ایسا کون سا حق ہے جو آئین میں ہے اور پامال کیا جارہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں عدالت کو اختیار حاصل ہے وہ کسی بھی قسم کی تفتیش کراسکتی ہے،کوئی ایسی قانونی رکاوٹ بتائیں جس کی بنیاد پر فراڈ کی تحقیقات نہ کرائی جاسکتی ہوں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس عدالت میں ڈرائیور، مالی اور چھوٹے موٹے گھریلو کام کرنے والوں نے بیانات دیے ہیں، ملازموں نے بیانات دیےکہ انہیں نہیں معلوم ان کے اکاونٹس میں اربوں روپےکس نے رکھے، جاننا چاہتے ہیں وہ فرشتےکون تھے جنہوں نے ان اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈالے۔

وکیل شاہد حامد نے کہا کہ تفتیشی ادارے قانون کے مطابق اختیارات استعمال کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چھان پھٹک کی اس لیے ضرورت ہے اگر آپ نے کچھ نہیں کیا تو کلئیر ہوجائیں، 35 ارب روپے جمع کرادیں تمام اکاؤنٹس کھول دیتے ہیں۔

وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ایف آئی اے کے 35 ارب روپے کے اعداد و شمار جعلی ہیں، ایک اکاؤنٹ سے ایک کروڑ دوسرے میں گیا پھر تیسرے میں تو ایف آئی اے نے ضرب کر دیا۔

وکیل نے مزید کہا کہ اومنی گروپ نے 3 ارب روپے ڈالے، اتنے ہی نکالے اس میں کیا ہیرا پھیری ہے، سپریم کورٹ کسی معاملے میں جے آئی ٹی بناتی ہے تو مسائل ہوتے ہیں۔

اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جہاں پہلے سے تفتیش ہورہی ہو وہ معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجا جاتا رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر تفتیش کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیم بنانا چاہتے ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا پاناما معاملے میں سربراہ نیب نے تفتیش سے انکار کیا تھا، ایف آئی اے باصلاحیت ادارہ ہے، خود تحقیقات کرسکتا ہے، جے آئی ٹی میں ایسے افراد کو شامل نہ کیا جائے جن پر ملزمان کو اعتراض ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس شخص پر ذاتی اعتراض ہے جس پر وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نجف علی مرزا پر ملزمان کو ذاتی اعتراض ہے، ایک ملزم نے نجف مرزا پر پہلے ایف آئی آر درج کرائی تھی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراض ہے تو نجف مرزا کو جے آئی ٹی میں نہیں ڈالتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے