1965ء کی جنگ کے عوامی پہلو۔۔!!!

ءروایتی حریف بھارت کے خلاف ستمبر 1965 کی جنگ  میں پاکستانی افواج نے دفاع وطن کیلئے جس جوا نمردی کا مظاہرہ کیا عسکری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔بھارتی فوج نے سترہ دن میں تیرہ بڑے حملے کئے لیکن وہ لاہور کے اندر داخل نہ ہو سکی۔ فوج نے قصور اور واہگہ کے سیکٹروں میں زبردست جنگ کے بعد دْشمن کی فوجوں کو پوری طرح پیچھے ہٹا دیا اور بھارت کی بھاگتی ہوئی فوج بہت سا جنگی سامان بھی چھوڑ گئی جس میں توپیں ،گاڑیاں اور گولہ بارود بھی شامل تھے۔چونڈہ کے محاذ پرٹینکوں کی بڑی جنگ میں دشمن کےکئی گنا بڑی تعداد میں حربی سامان سے مقابلے کے لیے ہمارے ہتھیارکم پڑے تو ہمارے جوان سینوں پر بم باندھ ٹینکوں کے نیچے گھس گئے اور دشمن کے وار کو تہس نہس کر دیا،آج وہ علاقہ ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لاہور میں ناکامی کے بعد دشمن نے اپنی کاروائی کا دائرہ بڑھاتے ہوئے راولپنڈی،کراچی،سرگودھا،ڈھاکہ،چٹا گانگ،جیسور اور رنگ پور پر فضائی حملے کئے جن کا نشانہ فوج کے ساتھ نہتے شہری بھی بنے۔
قوموں اورملکوں کی تاریخ میں کچھ وقت ایسے آتے ہیں جو عام دنوں کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں، ماؤں سے ان کے جگر گوشے اور بوڑھے باپوں سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کامطالبا کرتے ہیں۔قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن حق و باطل کے میدان جنگ کا رخ کرتے ہیں  کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
65 کی جنگ میں فوج کے ساتھ عوام کا بھی شاندار کردار ہے۔مجھے فخر ہے کہ میں بھی 1965 کی جنگ کےایک سویلین غازی کا بیٹا ہوں۔میرے والد چوہدری ولی محمد مرحوم و مغفور اکثر 65 کی جنگ کے قصے ہمیں سنایا کرتے تھے اکثر تو یاد نہیں مگر جو چند یاد ہیں وہ اس جنگ میں قوم کے کردار پر روشنی ڈالنے کیلئے کافی ہیں،وہ چو نکہ ایک چھوٹے ٹرانسپورٹر تھے اوراپنے علاقے کے اندر 60 کی دہائی میں ذاتی ٹرک و گاڑی صرف انہی کے پاس تھی تو جنگ  کے آغاز کے ساتھ ہی دوسرے محب وطن پاکستانیوں کی طرح انہوں نے اپنے چند نڈر ساتھیوں کے ہمراہ فوج کے ساتھ معاونت کیلئے لاہور واہگہ بارڈر کا رخ کیا۔وہاں جاکر انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں تو فوج کی طرف سے انہیں سرگودھا سے واہگہ بارڈر تک گولہ بارود لانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔بزرگوار بتاتے ہیں کہ ٹرک ڈرائیور چاچا حمید مرحوم جنہیں ہم ”چاچا میدا” کہتے تھے گاڑی چلاتے اور وہ ساتھ والی سیٹ پر وہ بیٹھتے جب سرگودھا سے واپسی پر انکا ٹرک لاہور میں داخل ہوتا تو لوگوں کی لائنیں لگی ہوتیں جو ہاتھ میں کھانے سے بھرےٹفن،چائے کے تھرماس،بسکٹ بھنے ہوئے چنےاور خشک میوہ جات کے تھیلے پکڑے کھڑے ہوتے ہم انکی چیزیں رکھ لیتے اور جب گنجائش نہ رہتی تو لوگ شدید منت سماجت کرتے کے ہمارا کھانا لے جائیں اور وطن کے جری جوانوں تک پہنچائیں۔
وہ لاہور کی سڑکوں کا احوال بتاتے ہیں کہ نہتے جوان بوڑھے بچے بھارتی جنگی جہازوں کو مسلسل للکارتے اور بعض ہاتھوں میں لاٹھیاں پکڑ کر ان جہازوں کو کہتے ”اُتر تھّلے بے غیرتا تینوں دسیّے” اور جو انکے منہ میں آتا کہتے۔۔۔قوم کا جزبہ ایسا تھا کہ تمام لوگ افواج، ادارے اور حتٰی کہ معاشرے کا ہر فرد محب الوطنی سے سرشار دشمن کے دانت کھٹے کرنے کیلئے دن رات سرگرداں تھا۔قوم نے جس بے خوفی سے فوج کے ساتھ ملکر یہ جنگ لڑی اس کی ملکوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
چاچا حمید بتاتے ہیں کہ جنگ کے دوران ایک دن واہگہ بارڈر پر چوہدری صاحب گولہ بارود سے بھر ے بیڈ فورڈ ٹرک کی چھت پر بڑے آرام سے سو رہے تھے کہ اچانک فضائی حملے میں شدید بمباری شروع ہو گئی،تو میں نے جب انہیں جگایا تو انہوں نے کہا کہ سونے دو یار ہم جہاد کے مشن پر ہیں شہادت نصیب میں ہے تو سونے پر یا جاگنے پر بارود کی بھری گاڑی میں ایک بھی گولہ گرا تو زندہ نہیں رہیں گے اس لئے تم بھی آرام سے سو جاؤ۔جنگ کے دوران فوج کی طرف سے جب ابوّ سے پوچھا گیا کہ کوئی مدد چاہیے تو انہوں نے کہا کہ مجھے ایسی رائفل چاہیے جو جہاز گرا سکے کیونکہ انکے پاس گاڑی میں بائیس بور رائفل تھی جسکا بلٹ جہاز تک نہیں پہنچ سکتا تھا تو ایک افسر نے گاڑی کے بونٹ پر سادہ کاغذ پر انہیں سیون ایم ایم رائفل رکھنےکی اجازت دی،وہ گاڑی کے فیول سمیت بیشتر اخراجات اپنی جیب سے کرتے رہے،انہیں جنگ میں کامیابی کے بعد اعزازت سے بھی نوازا گیا دوسرا وہ بتاتے تھے کہ جنگ میں جب بہت لوگ شہید اورشدید زخمی ہوگئے توخون کے عطیات کی اپیلیں کی گئی ہسپتالوں میں لوگوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں سب کی خواہش تھی کہ فوجیوں کو اسی کا خون لگایا جائے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہسپتال میں شہید ہونے والے جن فوجیوں کو وہ گاڑی میں ڈال کر لاہور کے ہسپتالوں میں لائے وہ آخری سانسوں تک پرسکون رہے اور اللہ سے مدد اور پاکستان کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے رہے۔65 کی جنگ میں پاکستان ٹیلی ویژن کی عمر ایک سال تھی اور ٹی وی سیٹ بھی محض چند گھروں میں موجود تھے تاہم وہ بتاتے ہیں کہ بیشتر لوگ ریڈیو سے نشر کی جانے والی خبروں کے ذریعے جنگ  بارے معلومات حاصل کرتے اور یہاں چلائے جانے والے ملی نغموں سے اپنے جذبات گرماتے۔دشمن طیاروں کی بمباری اور انتہائی ہنگامی صورت حال میں بھی لوگ مسلسل سڑکوں پر رہتے  انکے ٹرک سمیت گلی کوچوں میں ریڈیو پاکستان اور خصوصاً اس پر ملکہ ترنم میڈم نورجہاں اور دوسرے فنکاروں کے لہو گرمانے والے ملی نغمے ہر وقت گھونجتے رہتے۔ یہ تھا وہ جذبہ جسے پورے عالم نے دیکھا، میں سمجھتا ہوں کہ یومِ دفاعِ پاکستان اس عہد کی تجدید کا بھی دن ہے کہ اگر ہم ایمان ،اتحاد اور نظم قائم رکھیں تو کوئی جارح ہمارے ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
ہماری طاقت عددی برتری میں نہیں بلکہ ایمان کی پختگی میں ہے 1965ء کے بعد ہم نصف صدی سے زائد گزار چکے ہیں اور ایٹمی قوت بننے اور دفاع کے ناقابل تسخیر ہونے کے بعد ہمارا دشمن ہمارے ساتھ جنگ لڑنے کی بجائے عوام، افواج پاکستان اور ہمارے اہم ریاستی اداروں کے درمیان سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے نفرتیں پھیلانے کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے تاہم یوم دفاع پر سیاسی قیادت کا جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہونے والی مرکزی تقریب میں ایک ساتھ بیٹھنا ایسے عناصر کے منہ پر طمانچہ ہے۔آئندہ بھی ہمیں ملکر دشمن کے اِیسے پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینا ہے،آئیے عہد کریں کہ ہم ایک رہیں گے،اور مل کر دشمن کے ہر پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے