بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں میں اختلافات

پاکستان میں صدارتی انتخابات کے بعد صوبہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے اختلافات منظر عام پر آ گئے ہیں۔

تحریک انصاف نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ جام کمال پارٹی کی صوبائی قیادت کو اعتماد میں نہیں لے رہے ہیں۔

بلوچستان کی مخلوط حکومت بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت میں چھ جماعتوں پر مشتمل ہے۔

ان میں تحریک انصاف دوسری بڑی جماعت ہے جبکہ باقی جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی ،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اورجمہوری وطن پارٹی شامل ہیں۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت کی کابینہ میں تحریک انصاف کا ایک وزیر شامل ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا تعلق بھی تحریک انصاف سے ہے۔

مبصرین کے مطابق 27 اگست کو بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل کے وقت سے ہی تحریک انصاف کو کابینہ میں پارٹی کی نمائندگی اور محکموں کی الاٹمنٹ پر اختلافات تھے لیکن صدارتی انتخابات تک ان اختلافات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق صدارتی انتخابات کے فوراً بعد تحریک انصاف بلوچستان کی جانب سے میڈیا میں اختلافات اور تحفظات کا اعلانیہ طور پر اظہار کیا گیا۔

تحریک انصاف بلوچستان کے ترجمان بابر یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ مخلوط حکومت میں دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے تحریک انصاف کو جو اہمیت ملنی چاہیے تھی وہ اسے نہیں دی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ نہ تحریک انصاف کو اعتماد میں لیتے ہیں اور نہ ہی اس کی قیادت سے مشورہ کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پیر کو تحریک انصاف کا ایک وفد اسلام آباد جائے گا اور وہاں وزیر اعظم عمران خان کو تحریک انصاف کے تحفظات اور خدشات سے آگاہ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ان تحفظات کو دور نہیں کیا گیا تو تحریک انصاف اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔

تاہم وزیر اعلیٰ جام کمال کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت میں کوئی اختلافات نہیں ہیں۔

دوسری جانب جمعے کو کابینہ میں جو توسیع کی گئی اس میں تحریک انصاف سے کسی رکن کو نہیں لیا گیا۔

کابینہ میں دوسرے مرحلے میں تین مشیر لیے گئے ہیں۔

نئے مشیروں میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبد الخالق ہزارہ، عوامی نیشنل پارٹی کے نعیم بازئی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے عبد الرؤف رند شامل ہیں۔

توسیع کے بعد کابینہ کے مجموعی اراکین کی تعداد 14ہو گئی تاہم اس میں خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے