باس کو ہلکا نئیں لینے کا!

وزیرِ اعظم عمران خان نے پانی کی کمی کو پاکستان کا بنیادی مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا ہے اور اس مقصد کے لیے چیف جسٹس کے قائم کردہ فنڈ کو وزیراعظم کے فنڈ برائے ڈیم میں ضم کر لیا ہے۔

یہ بہت اچھا قدم ہے۔ ویسے تو موجودہ حکومت کا ہر قدم اچھا ہی ہو گا کیونکہ یہ ایک محبِ وطن اور اسلامی شعائر پر کاربند حکومت ہے لیکن جانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ چندہ لینے اورچندہ نہ دینے کے جھگڑے کے درمیان ہم کچھ بنیادی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

پانی کی کمی دور کرنے کے بہت سے طریقوں میں سے ایک طریقہ ڈیم بنانا بھی ہے۔ ڈیم کیا ہوتا ہے؟ عام فہم زبان میں یہ میٹھے پانی کی ایک جھیل ہوتی ہے اور فراوانی کے دنوں میں اس میں پانی جمع کر لیا جاتا ہے جو خشک سالی کے دنوں میں نہروں اور دریاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

ڈیم کی اہمیت تبھی ہے جب اس میں گلیشئیرز کے پگھلنے اور بارشیں ہونے سے پانی آتا رہے۔ بھاشا ڈیم دریائے سندھ پر بنایا جائے گا۔ جس جگہ ڈیم بنے گا وہاں کی آ بادی کی آ باد کاری کا کیا طریقہ ہو گا؟

جب منگلا ڈیم بنا تو میر پوریوں نے جا کر انگلستان بسا لیا۔ انھیں حکومتِ برطانیہ نے باقاعدہ ورک پرمٹ جاری کیے اور یہ ایک بہت بڑا اجتماعی قدم تھا۔

بھاشا ڈیم کے متاثرین کے لیے کیا منصوبہ بنا یا گیا ہے؟ انھیں کہاں اور کیسے آ باد کیا جائے گا؟ ان کی زمینوں کی قیمت کا تعین کیسے کیا جائے گا؟ ان کو ادائیگی کب اور کیسے کی جائے گی اور اس عمل میں لوٹ مار کے قومی کھیل پر بند کیسے باندھا جائے گا؟یہ وہ سوالات ہیں جو کالا باغ ڈیم کے لیے اٹھے اور آج تک ان کا جواب نہ مل سکا۔

بھاشا ڈیم کے لیے اپنے گھربار، زمینیں، آبائی پیشے ترک کرنے والوں کے لیے ہم کیا رویہ اختیار کریں گے؟ کہنے کو تو ہمارے پاس ایک جذباتی نعرہ ہے کہ اگر بھاشا ڈیم نہ بنا تو ہم سب مریں گے اس لیے اب صرف ان کو قربانی دینا پڑے گی لیکن میرے خیال میں ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے اس کی آبائی زمینوں سے بے دخل کرتے ہوئے بہت نہ سہی تھوڑی سی ہمدردی اور انصاف کا مستحق سمجھ لیا جائے۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ بھاشا ڈیم سے کن علاقوں کو سیراب کیا جائے گا؟ یقیناً یہ بات فائلوں میں موجود ہو گی لیکن کیا عوام کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا ضروری نہیں؟ سندھ طاس کے منصوبے کے تحت جو دریا انڈیا کو دیے گئے ان میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے رابطہ نہروں کا ایک نظام بنایا گیا تھا۔

تیسری اور اہم ترین بات اس منصوبے کے لیے پوری دنیا ہمارا ساتھ کیوں نہیں دے رہی؟ گلگت بلتستان کا علاقہ ابھی تک انڈیا کے ساتھ متنازع سمجھا جاتا ہے اور متنازع علاقے میں ڈیم بنانے کے لیے کوئی بھی مالیاتی ادارہ ہم سے تعاون کو تیار نہیں یہاں تک کہ چین بھی اس معاملے پہ کنی کترا کے الگ ہو گیا ہے۔

انگریزی زبان میں ایک محاورہ ہے از اٹ ورتھ اٹ؟کئی ارب ڈالرز سے بنا یا گیا ایک بڑا ڈیم جس کے لیے ہمیں دنیا کا سفارتی اور مالی تعاون بھی حاصل نہیں اور اس کی تعمیر کے لیے بہت بڑی مقامی آبادی کو ہجرت کرنا پڑے گی، کئی آبادیاں، سڑکیں، انفراسٹرکچر کا حصہ اور تاریخی آ ثار زیر آب آ جائیں گے۔

دنیا بھر میں بڑے ڈیم بنانے کا رجحان ختم ہو رہا ہے تو ہم ایک بڑا ڈیم جس کے لیے ہمارے پاس وسائل بھی نہیں تعمیر کر پائیں گے؟ کیا ہمارے اندر اتنی تعمیری صلاحیت ہے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ ڈیم زلزلے سہہ پائے گا؟

یہ بہت بنیادی اور سادہ سوال ہیں اور ان کا جواب جاننا عوام کا حق ہے۔ انھیں اعتماد میں لیا جائے۔ ریاستیں ایڈرنلین کے بہاؤ پر نہیں چلتیں جب عوام کو اس قسم کے نعروں سے اکسایا جاتا ہے کہ گھاس کھائیں گے اور ایٹم بم بنائیں گے تو وہ بجا طور پہ آپ سے سوال کریں گے کہ یہ ایٹم بم کیا شب برات پر چلانے کے لیے بنایا تھا؟ اپنے ووٹرز اور مینڈیٹ کاحترام کریں کیونکہ جاننا ان کا حق ہے، انھیں ہجوم نہیں ایک قوم بنائیں۔

رہی بات چندے سے ڈیم بنتا ہے یا نہیں تو وہ بہت بعد کی بات ہے۔ ہم نے امداد پر ریاستیں چلتیں اور چندوں پر فوجیں پلتی دیکھی ہیں یہ تو ایک ڈیم ہی ہےنا ؟ یہ بھی بن جائے گا، باس کو ہلکا نئیں لینے کا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے