قادیانی مسئلہ تو فرع ہے

قادیانی مسئلہ، مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق ہی کی ایک فرع ہے۔ مذہب اور ریاست کے مابین رشتے کا تعین ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ جب تک اسے حل نہیں کیا جائے گا، اس سے نئی نئی شاخیں اگتی رہیں گی۔

1953ء میں، پہلی بار یہ مسئلہ اٹھا۔ 1974ء میں اپنے تئیں ہم نے اس کا حل تلاش کر لیا۔ بھٹو صاحب نے فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ انہوں نے نوے سالہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ آج 2018ء میں، ایک نا قابلِ ذکر حکومتی اقدام نے، جس طرح اسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ اب بھی حل نہیں ہوا۔ ضیاالحق صاحب کے عہد میں، جب حدود قوانین کا نفاذ ہوا تو یہ گمان کیا گیا کہ نفاذِ اسلام کا مطالبہ پورا ہو گیا۔ بعد کے واقعات نے بتایا کہ یہ مطالبہ تو سدا بہار ہے۔

تاریخ یہ ہے کہ مذہبی طبقات ہر دور میں ایک مطالبہ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب وہ مان لیا جاتا ہے تو ایک مختصر مدت کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ کچھ وقت گزرتا ہے تو یہی لوگ نیا مطالبہ لے کر میدان میں نکل آتے ہیں۔ قراردادِ مقاصد منظور ہوئی تو کہا گیا کہ اب ریاست نے کلمہ پڑھ لیا۔ کچھ دن گزرے تو انہی لوگوں نے اسے ایک ایسی برسات قرار دیا جس سے پہلے کوئی گھٹا اٹھی اور نہ جس کے بعد کوئی روئیدگی پیدا ہوئی۔ 1973ء کا آئین منظور ہوا تو کہا گیا کہ منزل آ گئی۔ مگر اسی آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو اسلام دشمن بتا کر اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور اس مہم کو نظامِ مصطفیٰ کی تحریک بنا دیا گیا۔

ضیاالحق صاحب نے حدود قوانین بنائے۔ وفاقی شرعی عدالت بنائی۔ قادیانیوں کی نقل و حرکت کو مزید محدود کیا۔ بعد میں پتا چلا کہ لوگ اب بھی راضی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ملک میں اسلام نافذ ہوا اور نہ ہی قادیانی مسئلہ حل ہو سکا۔ آج پھر کیا ہوا؟ عاطف میاں کو ہٹا دیا مگر مسئلہ اب بھی باقی ہے۔ سوال یہ ہے یہ کیسا مسئلہ ہے کہ جسے جتنا حل کیا جاتا ہے، اتنا ہی لا ینحل ہوتا چلا جاتا ہے؟ اگر فی الواقعہ یہ کوئی سیاسی مسئلہ تھا تو اتنے اقدامات کے بعد، اسے حل ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر نہیں حل ہو رہا تو کیوں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جہاں اس کا حل تلاش کر رہے ہیں، وہاں یہ سرے سے موجود ہی نہیں؟ کیا اصلاً یہ مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کا مسئلہ نہیں؟

سادہ بات یہ ہے کہ جدید ریاست کا ڈھانچہ ان مسائل کے حل کے لیے بنا ہی نہیں۔ ریاست کی تاریخ یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر انسانوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہے۔ ہمیشہ سے اس کا اصل وظیفہ یہی رہا ہے۔ انسانی تمدن کے ارتقا کے ساتھ ساتھ، اس کے وظائف میں توسیع ہوتی رہی ہے‘ جو دراصل بنیادی مطالبات ہی سے پھوٹے تھے۔ جیسے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ریاست کا وظیفہ قرار پایا‘ اور حقوق کی فہرست میں جان و مال کے تحفظ کے علاوہ بھی بہت سے حقوق شامل ہو گئے۔ انہی میں ایک حق مذہبی آزادی بھی ہے۔

اسلام کو جب اجتماعی حوالے سے بیان کیا گیا تو قانون کے بنیادی مطالبات کو ‘مقاصدِ شریعت‘ کے عنوان کے تحت پیش کیا گیا۔ امام غزالی کے استاد نے اس کی فہرست بنائی تو انہیں پانچ تک محدود رکھا۔ ان میں ایک مقصد حفظِ دین بھی ہے۔ دورِ جدید تک آتے آتے، مسلم فقہا اور علما نے اس میں توسیع کر دی ہے۔ اس موضوع پر آخری اہم کتاب ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی ہے جنہوں نے مقصدِ شریعت کی فہرست کو طویل کر دیا ہے۔

جدید ریاست کے تصور میں مذہبی آزادی شہری کا بنیادی حق ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ریاست اس کے مذہبی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں رکھتی۔ ہم ریاست کو ایک مذہبی ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ وہ ایک سیاسی ادارہ ہے۔ اس سیاسی ادارے کو جب ہم مذہبی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں‘ جن میں سے ایک مسئلہ قادیانیوں سے متعلق بھی ہے۔ ہم نے مذہبی معاملات کو ریاست کے وظائف میں شامل کر دیا‘ حالانکہ وہ اس کے لیے بنی ہی نہیں۔

علما نے اجتہاد کیا اور اپنے تئیںجدید ریاست کو قرآن و سنت کا پابند بنا کر اس کو اسلامائز کر دیا۔ یہ اجتہاد ناکام ہو گیا۔ اس ناکامی کی، اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ ہمارا مذہبی ذہن ایک سفارشی کمیٹی میں بھی ایک ایسے فرد کو گوارا نہیں کر سکا‘ جو ہم سے مختلف مذہبی خیالات رکھتا ہے۔ حکومت نے اس سارے معاملے کو سیاسی حوالے سے دیکھا۔ اس زاویۂ نظر سے صرف ایک بات کی اہمیت تھی: جس مقصد کے لیے کمیٹی بنائی جا رہی ہے، مذکورہ شخص اس کی رکنیت کی اہلیت رکھتا ہے‘ یا نہیں۔ جدید ریاست کی نظر سے یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا کہ اس کی مذہبی شناخت کیا ہے۔

حکمران طبقے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ علمی استعداد اور سیاسی عزم، دونوں سے محروم ہے۔ یہ طبقہ جدید ریاست کو سمجھتا ہے نہ مذہب کو۔ حکومت کو جب بھی ایسا چیلنج درپیش ہوا، اس نے فرار ہی میں عافیت سمجھی۔ اس سے ایک مسئلہ فوری طورپر ‘حل‘ تو ہو جاتا ہے لیکن کچھ وقت کے بعد ایک نئے چیلنج کی صورت میں سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ اس وقت عاطف میاں کے مسئلے پر، عوامی تائید رکھنے والی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایک موقف رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمیشہ کی طرح ایک گروہ کے سامنے سر جھکا دیا۔ یہی نہیں مشرف جیسا لبرل اور توانا آمر بھی ان کے سامنے اپنی چوکڑی بھول جاتا ہے۔

حکومت اگر سمجھتی ہے کہ یہ پہلا اور آخری چیلنج ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ اگر وہ اتنی معمولی بات پر فرار پر مجبور ہوئی تو اس سے بڑے مسئلے پر کیسے کھڑی رہے گی؟ یہی نہیں، یہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح یہ سمجھتی ہے کہ مذہب کے معاملے میں اسے روایتی علما ہی سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے۔

جدید مسلم مفکرین میں اگر جدید ریاست کو کسی نے سمجھا ہے تو وہ علامہ اقبال ہیں۔ انہوں نے بنیادی سوال اٹھا دیے تھے، جنہیں مخاطب بنائے بغیر مسلم سیاسی فکر کو جدید ریاست سے ہم آہنگ نہیں بنایا جا سکتا۔ روایتی طبقات بار بار ریاست کو مسلمان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ ریاست تو کوئی ذی عقل وجود نہیں جس کا کوئی مذہب ہو سکتا ہے۔ یہ حکمران ہیں جن کا مذہب ہوتا ہے۔

حکمرانوں کے مذہب کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسلام پر شعوری ایمان رکھنے والے ہوں گے‘ تو وہ آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کریں گے۔ کسی پر ظلم نہیں کریں گے اور مقاصد شریعت کی تکمیل کریں گے۔ وہ امورِ حکمرانی ہی انجام دیں گے لیکن خدا خوفی کے ساتھ۔ ایک مسلمان اور غیر مسلم حکمران کا بنیادی فرق آخرت میں جواب دہی کا احساس ہے۔ اسے عوام کو اگر غربت سے نجات دلانی ہے تو یہ دیکھے گا کہ کون اس کا اہل ہے۔ اس کا مذہبی کام صرف ایک ہے۔ مسلمانوں پر ان کے مذہب کا اطلاق اور غیر مسلموں کے لیے ان کے مذہب کے مطابق فیصلہ۔ اگر اکثریت مسلمانوں کی ہے تو جمہوری روایات کے مطابق، انصاف کے ساتھ، اکثریتی طبقے کی خواہشات کا احترام۔

حکومت کو قائم ہوئے چند دن ہوئے ہیں۔ یہ بات ابھی سے واضح ہو گئی کہ مذہب اور ریاست کے تعلق کو صحیح خطوط پر استوار کیے بغیر امورِ حکومت نہیں چلائے جا سکتے۔ اسی نوعیت کا دوسرا مسئلہ سول ملٹری تعلقات ہیں۔ اس سے بڑی غلط فہمی کوئی نہیں ہو سکتی کہ ان دو مسائل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے استحکام لایا جا سکتا ہے۔ ملک کی ستر سالہ تاریخ کے ہر صفحے پر اس کی گواہی ثبت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے