عاطف میاں کا مسئلہ اور وفاقی وزیر مذھبی امور کا کردار

بے خطر کودپڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشہ لب بام ابھی

ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم عشق کا معاملہ ہے۔یہاں پر عقل کی تمام سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں۔اور ویسے بھی عشق میں عقل کا گزر ہی ممکن نہیں۔اور عشق آقائےدوجہاں سے ہو تو وہاں پر سوال جواب چہ معنی دارد
مغرب نے ایک نیا وطیرہ اختیار کر لیا ہے تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد وہ یہ دیکھنے کے لیے کہ مسلمانوں میں کتنی غیرت باقی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی نہ کوئی گستاخانہ حرکت کرتے رہتے ہیں۔اور پھر منہ کی کھاتے ہیں ۔

اسی طرح ہمارے حکمران طبقے کے اندر بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو حکمرانوں سے اس نوع کی غلطیاں کرواتے رہتے ہیں۔گذشتہ دور حکومت میں ختم نبوت کے فارم میں الفاظ کی تبدیلی کا معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ نئی حکومت نے ایک قادیانی کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا ممبربنا دیا۔

جس پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو مجاہد ختم نبوت کہلانے والے اور بڑے بڑے جغادری اس کے حق میں ایسی ایسی دلیلیں لےکر آئے کہ جو خود عاطف میاں کو بھی معلوم نہیں تھیں۔یا حیرت جہاں ایک طرف پوری قوم اور دوسری طرف چند دانشور جو دور دور سے شرعی حوالے لے کر آ رہے تھے۔کہ جناب اس ملک میں تمام مذاہب کے لوگ بستے ہیں اور یہ کہ ہر شہری کا برابر کا حق ہے۔تو پھر عاطف میاں کی مخالفت کیوں ہے۔
جناب یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔بات اگر اقلیت کی ہو تو کبھی بھی کسی ایک مسلمان نے کسی ہندو سکھ یا عیسائی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔پاکستان میں اقلیتوں کی ہر جگہ سیٹیں مختص ہیں۔اسمبلیوں میں کوٹہ ہے۔اس میں جہاں اور لوگ ہیں وہاں پر قادیانی بھی آ سکتے ہیں لیکن وہ نہیں آتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتے۔یعنی وہ اپنے عقائد بھی رکھنا چاہتے ہیں اور اندر ہی اندر سے مسلمانوں کو دیمک کی طرح چاٹنابھی چاہتے ہیں۔

جو قوم ختم نبوت کے حلف نامے میں ایک لفظ کی تبدیلی برداشت نہیں کر سکتی وہ ایک جیتے جاگتے قادیانی کو کیسے برداشت کر سکتی ہے۔پھر یہ مسئلہ حوالوں سے زیادہ محبت اور عقیدت کا معا ملہ ہے۔مسلمان کٹ تو سکتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر کوئی حرف برداشت نہیں کر سکتا۔جب خود اللہ فرماتا ہے کہ کہ میں نے تمھارے دیں مکمل کر دیا ہے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیں کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں تو پھر سوال جواب اور کسی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں۔

اس مسئلے پر قوم تو مشتعل اور اپنے جذبات رکھتی تھی لیکن وہ لوگ داد کے مستحق ہیں جنہوں نے حکمران پارٹی کے اندر رہ کر اس کی مخالفت کی اور اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار بھی ادا کیا ۔اس میں اہم ترین کردار وفاقی وزیر مذھبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری کا ہے جنہوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔اور لوگوں نے بھی اپنی اپنی جگہ پر زبان اور قلم سے اپنا کردار ادا کیا جن میں انجنیئر افتخار احمد نمایاں ہیں۔اتفاق سے جس دن یہ فیصلہ آیا اسی دن محترم مولانا علی محمد ابو تراب صاحب کے ہمراہ وزیر مذھبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب سے ملاقات ہوئی ۔چونکہ میڈیا کے ذریعے ان کے کردار کے بارے میں معلوم ہوا تھا لہذا ان کو اس مسئلے کے حل پر مبارک باد پیش کی۔

ڈاکٹر نور الحق قادری 2002 سے 2013 تک ممبر قومی اسمبلی رہے اور اس دوران وفاقی وزیر زکو ت و عشر بھی رہے ۔آپ نے ایم ایس سی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔اتفاق سے ان کے دو اساتذہ سے بھی ان ہی دنوں میں ملاقات ہوئی۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز بھی وفاقی وزیر کے استاد رہے اور ان کو اپنا ہونہار شاگرد مانتے ہیں۔

ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کو بلایا اور اس مسئلے پر رائے طلب کی۔قادری صاحب نے کہا کہ یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے۔اور کہا کہ میں کوئی مفتی نہیں کہ فتوی دوں ۔لیکن فوری طور پر جو بیان کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ قادیانی دو طرح کے ہیں۔ایک پیدائشی اور دوسے وہ جنہوں نے بعد میں اسلام کو ترک کر کے قادیانیت اختیار کی تا ہم اس کے شرعی یا غیر شرعی ہونے سے زیادہ یہ ہے کہ پاکستان کی مسلم سوسائٹی میں یہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔چونکہ یہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ ہے۔ اور اس حوالے سے پا کستان کا معاشرہ انتہائی سخت اور حساس ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ کسی مسئلے کو دیکھنا چاہیے کہ اس میں نقصان زیادہ ہے یا فاہدہ
اور ایک آیت بھی پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے۔
البقرہ آیت219
اور اس میں جو گناہ(نقصان)ہےوہ نفع سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر نور الحق قادری قادری کے دلائل پر عمران خان نے کہا کہ ہم ان کو امام نہیں بنا رہے اور نہ ہی ان اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئر میں تو پھر کیا حرج ہے۔

لیکن قادری صاحب نے کہا کہ اس مسئلے میں جہاں پوری عوام کی رائے ایک طرف ہے اور اس کی حساسیت زیادہ ہے۔لہذا اس کو ترک کر دینا چاہیے۔قادری صاحب کے زور دینے پر وزیر اعظم نے یہ تسلیم کر لیا کہ عاطف میاں کو ہٹایا جائے اورکہا کہ اسد عمر کو کہتے ہیں کہ وہ اس سے استعفی لے لیں اور آج یہ ہو گیا۔

اچھی بات کی تائید ہونی چاہیے ۔ایسے موقعوں پر اپنی رائے دینا اور آزادانہ اور حق کی رائے دینا ہی اصل کام ہے۔شیخ رشید جو الیکشن بل کے موقع پر تو احراروں کو آواز دے رہے تھے اور بہت سارے دوسرے بھی لیکن اس موقع پر سب نے چپ سادھ لی تھی۔تا ہم ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بروقت کلمہ حق کہا اور یوں ایک مسئلہ حل ہو گیا۔جو کام کرے اس کو کریڈٹ ملنا چاہیے ۔
امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب یہ کردار ادا کرتے رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے