’’اس ملک کورکھنا میرے بچو سنبھال کے‘‘

دوہفتے قبل ’’میر ےمطابق‘‘ کی ٹیم کے ساتھ میٹنگ کے دوران ڈیم فنڈ میں عطیہ پر بات ہوئی تو میں کچھ کہتے کہتے رک گیا اور موضوع تبدیل کردیا۔ گزشتہ اتوار مورخہ 9ستمبر میں نے ’’میرے مطابق‘‘ میں اس فنڈ کے حوالے سے چند جملے بولے اورریکارڈنگ کے بعد گھر پہنچ کر اپنے بیسمنٹ تک محدود ہوگیا کہ یہی میرا معمول ہے کہ میں گھرکے اندر ایک گھر میں رہتا ہوں۔ 6:30تا 7:00بجے روٹین کے مطابق پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوا تومیں کمر سیدھی کرنے لیٹا ہوا تھا کہ بچے خلاف معمول نیچے آئے اور یہ جان کر کہ میں آرام کر رہاہوں، واپس چلےگئے۔

8:30بجے میں سٹڈی میں آیا توبتایا گیا کہ بچے آئے تھے اور یہ کہہ گئے ہیں کہ جب بابا اٹھیں ہمیں بتا دینا۔میں نے بلوا بھیجا تو تینوں باجماعت آئے اور میرے سامنے بیٹھ کر چپ چاپ ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے۔ میری اکلوتی بیٹی محمدہ ماس کمیونی کیشن میں آنرز کی طالبہ ہے۔ دونوں بیٹے حاتم اورہاشم سکول کے مراحل میں ہیں۔ تینوںبہن بھائیوں کی یہ کنفیوژڈ سی خاموشی میرے لئے نئی اور ناقابل فہم تھی کیونکہ ہمارے درمیان مودب دوستی کا فرینک سارشتہ ہے….. کوئی اباگیری نہیں۔

کچھ دیر بعد مجھے ہی پوچھنا پڑا کہ ’’کیوں بھائی! اتنا بے وقت اتنا ہائی پاورڈ وفد کس چکر میں؟‘‘ دونوں بھائیوں نے بہن کو دیکھا، مسکرائے جو مسکراہٹ سے زیادہ خاموش پیغام سا تھا۔ محمدہ بیٹی نے تمہید باندھی۔’’بابا!ہم نے ابھی آپ کا پروگرام دیکھا۔ آپ نے ڈیم فنڈ کے حوالے سےبہت اچھی باتیں کی ہیں‘‘’’تھینک یو بیٹا‘‘’’ایک سوال ہے‘‘ ’’پوچھیں‘‘’’کیا یہ ساری اچھی باتیں صرف لوگوں کے لئے تھیں؟‘‘’’مطلب؟‘‘’’کیاہم نے خود کچھ نہیں کرنا؟‘‘’’سو بارکرو بیٹا! کس نے روکا ہے؟‘’’ہم اپنی سیونگز میں سے عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں لاکھ روپیہ ڈونیٹ کروں گی۔ حاتم 50ہزار اورہاشم 30ہزار۔‘‘

محمدہ نے جواب دیا تو میری کیفیت بیان سے باہر تھی لیکن مکمل ضبط کے ساتھ میں نے پوچھا کہ ’’ہاشم 30ہزار کیوں؟‘‘ تو انکشاف ہوا کہ ہاشم کے پاس ہیں ہی 30ہزار۔ میں نے کہا ’’اگر میں ہاشم کو 20ہزار ’’ادھار‘‘ دے دوں توکیاوہ بڑاہوکر یہ رقم مجھے واپس کردے گا؟‘‘ ہاشم جو سب سے چھوٹا ہے، چمک کر بولا ’’نہیں….. آپ ہر ماہ 500 روپیہ منتھلی میری پاکٹ منی سے کاٹ لینا۔‘‘اب ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ دوہفتے پہلے جب ’’میرے مطابق‘‘ کی ٹیم فاروق، امان اور شجیہ سے اس موضوع پر گفتگو کے دوران میں نے گفتگو گول کردی تھی تو دراصل اک خیال نے میرے ذہن وزبان پر تالے لگا دیئے تھے۔ خیال یا خواہش یہ تھی کہ میری بجائے میرے گھر کے اندر سے یہ آوازآنی چاہئے۔

میں جاننا چاہتا تھا کہ میرے بچوںپر میرے دھیمے دھیرے بھاشنوں کاکوئی اثر ہوا ہے یا نہیں کیونکہ جب بچے شروع شروع بیرون ملک گئے تو ہر بار واپسی پر پاکستان انہیں کچھ دن عجیب عجیب، اوپرااوپرا لگتا تھا۔ خاص طور پر میرے بڑے بیٹے حاتم کو جو ذرا ریزرو اور صاحب ٹائپ ٹین ایجرہے۔ اس بار دو ماہ بعد امریکہ سے واپسی پر وہ بالکل بدلا ہوا تھا۔ میں نے دو ماہ کی چھٹیوں کا حال پوچھا توبولا ’’بابا! ونڈرفل لیکن پاکستان پاکستان ہی ہے،اپنے وطن جیسا کوئی نہیں۔‘‘ میں بہت خوش تھا کہ میری بہت ہی دھیمی دھیری لیکچرنگ ضائع نہیں گئی۔

اسی لئے امید تھی کہ ڈیم فنڈمیںشمولیت کی آوازاندر سےآئے گی…… الحمد للہ ایسا ہی ہوا۔ایسا ہی ہوتا۔65ء کی جنگ میں کوئی ’’ٹیڈی پیسہ ٹینک‘‘ ٹائپ مہم چلی۔ میں روز پاکٹ منی اس میں ڈال دیتا۔ والد صاحب کو علم ہوا تو پاکٹ منی دوگنا کرتے ہوئے کہا ’’ٹینک کے ساتھ کچھ اوربھی لے لیاکرو‘‘ تب برگر نہیں بھٹورے اور جہانگیر مرغ پلائو ہوتا تھا جس میں مرغ بھی دیسی ہوتا کہ ابھی پولٹری عام نہ ہوئی تھی۔اس سے بھی بڑھ کر بچپن میں ایک فلم دیکھی ’’بیداری‘‘ جس کے ہیرو تب بھی میرے فیورٹ سنتوش کمارتھے۔ اس فلم کےگیت اس وقت بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں مثلاً ؎’’آئو بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی‘‘اور اس سے بھی بڑھ کر یہ لازوال نغمہ؎ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کےاس ملک کو رکھنا میرے بچو، سنبھال کے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے