سیکولرازم کی من پسند تشریح

سیکولرازم کی ہمارے ہاں من پسند تشریح کر کے اس کے خلاف دلائل دینے کا رجحان نیا نہیں ہے۔ میرے خیال میں برصغیر کی علمی تاریخ میں سید مودودیؒ اس طرز فکر کے بانی کہلائے جا سکتے ہیں۔ طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ مذہبی بیانیے کو متوازن اور Only option قرار دینے واسطے سیکولرازم کو "خدائی شریعت کے مقابل انسانی شریعت” جتلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیکولر نقطہ نظر کی بنیاد یعنی "حقوق کا تعین Intrinsic Value کی بنیاد پر” کو مغربی مفکرین کے افکار کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر دعوی کیا جاتا ہے کہ دیکھیے اگر ہم خدا کے کہے کو مان کر قانون سازی کرتے ہیں تو آپ بھی تو مغربی مفکرین یا چند مفکرین کے فرامین ہی کو مان کر قانون سازی کرنا چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ دعوی کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، ایک مغالطے سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔

سیکولر نظم حیات ہرگز کسی ایک یا چند مفکرین کی فکری ترک تازیوں کا پابند نہیں ہے۔ سیکولرازم کا پہلا کلمہ ہی فرد کی فکری آزادی ہے۔ یہاں تک کہ ملک کی اکثریت بھی اگر قانون سازی کے عمل میں کوئی رائے بنائے تو اقلیت کو اس سے اختلاف ہی نہیں بلکہ اسے تبدیل کر کے دوسری رائے بنانے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ ایسے عالم میں یہ کہنا کہ سیکولر بیانیہ خدا کی شریعت کے مقابلے میں انسانی شریعت کا نام ہے، سراسر غلط ہے۔ سیکولرازم پر تنقید اگر کرنی ہی ہے تو کم از کم اس کا درست مقدمہ سامنے رکھ کر کی جائے وگرنہ لگ بھگ سو سال تو ہو چلے ان تنقیدات کو مگر حاصل وصول کچھ نہ ہوا۔۔۔

فیس بک کی حد تک اس طرح کے مغالطے محترم زاہد مغل صاحب کی تحریروں میں دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ جبکہ ان کا اپنا طرز فکر یہ ہے کہ علمی مباحث میں اکثر اوقات روایتی بیانیے کو من و عن نہ تو پیش کرتے ہیں اور نہ ہی اس بنیاد پر کی جانے والی تنقید کو قبول کرتے ہیں بلکہ دھڑلے سے کہہ دیتے ہیں کہ "فلاں کے کلام کی توجیہ کا میں پابند نہیں، فقہ جو میں بیان کر رہا ہوں اس پر بات کریں، فلاں روایتی عالم نے کیا کہا میرا اس سے کچھ لینا دینا نہیں”۔۔۔

جناب عالی اگر خدا کی شریعت میں بھی "آپ کا فہم” اس قدر دخیل ہے تو سیکولرازم کو کسی ایک یا چند مفکرین کے ساتھ نتھی کرنے کا مقصد؟ حالانکہ خدا کی شریعت میں فصل نزاع کے لیے قرآن و حدیث کے بعد جمہور کو پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے مذہب پسند اصحاب علم "میں جو کہہ رہا ہوں” پر زور دیتے ہیں جبکہ وہی حضرات سیکولرازم میں جہاں بات ہی "میں جو سمجھتا ہوں” سے شروع ہوتی ہے وہاں "فلاں نے جو کہا ہے” پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے