’کلثوم نواز نہ ہوتیں، تو نواز شریف باہر نہ جا سکتے‘

پاکستان کی تین بار خاتونِ اول رہنے والی بیگم کلثوم نواز کینسر سے ایک سالہ طویل جنگ کے بعد منگل کو لندن میں انتقال کر گئیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ماضی کی طرح بیگم کلثوم نواز ایک مرتبہ پھر سیاست میں جدوجہد کے لیے تیار تھیں لیکن بیماری نے انہیں مہلت نہ دی۔ تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ ’نواز شریف کی سیاست میں انہوں نے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا‘۔

سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ’بیگم کلثوم نواز اگر احتجاجی سیاست نہ کر رہی ہوتیں تو شاید نواز شریف کو (سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں) ملک سے جانے کی اجازت نہ ملتی اور نہ ہی مارشل لا حکومت پر کوئی دباؤ ہوتا۔‘سنہ 1999 اور 2000 میں یہ وہ دور تھا جب ان کی حکومت کا تختہ الٹنے جانے کے بعد میاں نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف جیل میں تھے۔ مارشل لا حکومت کی طرف سے ان کے کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا۔

اس وقت بیگم کلثوم نواز نے احتجاجی سیاست کا آغاز کیا۔ انہوں نے اس وقت کی دوسری بڑی سیاسی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر متحدہ اتحاد برائے بحالی جمہورت یا اے آر ڈی کے قیام میں فعال کردار ادا کیا۔
باقاعدگی سے اس کے اجلاسوں میں شریک ہوئیں۔ انہوں نے مسلم لیگ کے کارکنان اور جماعت کو متحد رکھنے کے لیے بھی بھاگ دوڑ کی۔

اسی دور میں سنہ 2000 جولائی میں ان کی ایک تصویر سامنے آئی جو مزاحمت کی علامت بن گئی۔ لاہور میں ایسے ہی ایک اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے ان کی گاڑی کو پولیس نے روکا تو بیگم کلثم نواز نے گاڑی اندر سے بند کر لی اور اترنے سے انکار کر دیا۔ حتٰی کہ ان کی گاڑی کو لفٹر کی مدد سے آگے سے اٹھا لیا گیا اور وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ مگر وہ اپنے انکار پر قائم رہیں اور باہر نہیں آئیں۔

اس تصویر کے سامنے آنے سے مارشل لا حکومت سے مزاحمت کا ایک مضبوط پیغام گیا۔ بعد ازاں سعودی حکومت کی مدد سے ایک ڈیل کے ذریعے نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’یہ انتہائی اہم امر ہے کہ اپنی اس جدوجہد سے وہ اپنے شوہر اور ان کے خاندان کو بحفاظت ملک سے باہر لے گئیں۔ ان کی جدوجہد نہ ہوتی تو مارشل لا حکومت پر کوئی دباؤ نہ ہوتا‘۔ ان کا خیال ہے کہ ’گذشتہ برس ایک مرتبہ پھر جب نواز شریف کی سیاست پر برا وقت آیا تو بیگم کلثوم نواز ایک مرتبہ پھر مزاحمت کا وہی کردار ادا کرنے کے لیے تیار تھیں۔ اسی لیے ان کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوایا گیا۔’لیکن انہیں بیماری نے مہلت نہ دی کہ وہ آ کر حلف اٹھا سکیں یا سیاسی طور پر سرگرمِ عمل ہو سکیں۔

’وہ خود کہتی بھی تھیں کہ میں ہنگامی طور ہر سیاست میں آئی ہوں۔ مگر سیاست میں براہِ راست نہ رہتے ہوئے بھی وہ سیاست پر بہت اثر انداز ہوئیں۔ نواز شریف روزانہ کئی گھنٹے ان سے بات چیت کرتے تھے۔‘سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی شخصیت میں حال ہی میں جو سیاسی اور نظریاتی تبدیلی نظر آئی اور جس کا وہ خود ذکر بھی کرتے تھے، ’اس میں بھی بیگم صاحبہ اور ان کی بیٹی مریم نواز کا بڑا کردار ہے۔‘

کلثوم نواز ملکی سیاست کی پیچیدگیوں کو سمجھتی تھیں۔ وہ سنہ 2017 میں لاہور سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوئیں تھیں تاہم اس سے پہلے ہی انہیں بیماری نے آن لیا۔ وہ علاج کے لیے لندن جانے کے بعد واپس نہ لوٹ پائیں۔میاں نواز شریف کے عدالتِ عالیہ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد وہ براہِ راست سیاست میں حصہ لیتی نظر آ رہی تھیں اور یہ قیاس بھی کیا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ان ہی کے پاس جائے گی۔

بیگم کلثوم نواز عمر میں نواز شریف سے ایک برس چھوٹی تھیں۔ ان کا خاندان کشمیر سے تعلق رکھتا تھا جبکہ ان کی پیدائش لاہور میں ہوئی۔وہ مشہورِ زمانہ پہلوان گاما کی نواسی بھی تھیں۔ ان کے چار بچے ہیں جن میں حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور عصمہ نواز شامل ہیں۔کلثوم نواز کا شریف خاندان کے تمام اہم فیصلوں میں بنیادی کردار رہا۔ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے خود انھیں ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ شریف خاندان میں بیگم کلثوم نواز کا سیاسی تجزیہ اور لوگوں کے بارے میں ان کی رائے ہمیشہ درست ثابت ہوتی تھی۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے لیے ذاتی طور پر اس دھچکے سے باہر آنا آسان نہ ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے