ایڈولف آئیچمین کو ہولوکاسٹ کا معمار کہا جاتا ہے، وہ نازی جرمنی کی بدنام زمانہ ایس ایس تنظیم میں لیفٹیننٹ کرنل تھا، دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی جاری تھی تو آئیچمین کے ذمہ یہودیوں کو عقوبت خانوں تک پہنچانا اور جبراً ملک بدر کرنا تھا، اس دوران لاکھوں لوگ کنسنٹریشن کیمپوں میں بھجوائے گئے جہاں اُن پر اذیت ناک تجربات کئے گئے، ان میں معصوم بچے، عورتیں، مرد سب شامل تھے،
آئچمین اس تمام منصوبے کا مہتمم اعلیٰ تھا جس کے ذمہ لاجسٹک سپورٹ اور قیدیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا تھا، یہ وہ وقت تھا جب یہودی قیدی حراستی مراکز میں جانوروں کی طرح رکھے جاتے، انہیں گیس چیمبرز میں جمع کر کے مار دیا جاتا اور لاشیں مشین کی مدد سے پھینک دی جاتیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد آئیچمین کو امریکیوں نے گرفتار کر لیا مگر اِس نے نہایت چالاکی سے اپنی شناخت چھپا لی اور شک سے بچ گیا تاہم بعد میں جب اِس کا بھید کھلا تو اُس نے ریڈ کراس کی ایک جعلی دستاویز تیار کی اور یورپ سے فرار ہو کر ارجنٹینا آگیا اور ایک فرضی نام سے کاریں بنانے والی ایک بڑی کمپنی میں نوکری کر لی، بیوی بچے بھی وہیں بلا لیے اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے لگا۔
لیکن قسمت نے دیر تک یاوری نہیں کی، جرمن اہلکاروں نے آئیچمین کے بارے میں اسرائیل کے جاسوسوں کو اطلاع دے دی جنہوں نے اسے پکڑنے کا ایک منصوبہ بنایا، چونکہ ارجنٹینا کا اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں تھا سو واحد طریقہ یہی تھا کہ آئیچمین کو اغوا کر کے اٹھا لیا جاتا۔ موساد نے یہی کیا۔ 11مئی 1960کو اسرائیلی کمانڈوز آئیچمین کے بیونس آئرس میں واقع گھر کے سامنے گھات لگا کر بیٹھ گئے، اُس روز وہ گھر سے کچھ دیر سے نکلا مگر جونہی وہ اسرائیلی کمانڈوز کی گاڑی کے قریب پہنچا اسے دبوچ کر گاڑی میں بٹھا لیا گیا، وہاں سے اسے ایک گھر میں لے جایا گیا جسے کچھ روز پہلے ہی اسرائیلیوں نے کرائے پر لیا تھا،
آئیچمین سے پوچھ گچھ کی گئی تو اُس نے تھوڑی ہی دیر میں سچ اگل دیا، 20مئی کو اسے اسرائیل پہنچا دیا گیا اور 23مئی کو اسرائیلی وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں ایڈولف آئیچمین کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ اپریل 1961میں یروشلم میں آئیچمین کے خلاف جنگی جرائم کے الزام میں مقدمے کا آغاز ہوا جس کی سماعت تین ججوں نے کی، یہ مقدمہ اگست تک چلا، دسمبر میں ججوں نے اس کا فیصلہ سنایا، آئیچمین کو سزائے موت ہوئی، 31مئی 1962کی رات اسے رملہ جیل میں پھانسی دے دی گئی جب اس کی عمر 56برس تھی، اس کی لاش کو جلا کر راکھ سمندر میں بہا دی گئی۔ اسرائیل میں پھانسی چڑھنے والا یہ پہلا اور آخری شخص تھا۔
آئیچمین پر چلایا گیا مقدمہ تاریخی نوعیت کا تھا، اس مقدمے کو پوری دنیا نے دیکھا، اس مقدمے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے افراد اپنی داستان لے کر پیش ہوئے، انہیں ٹی وی پر دکھایا گیا اور یوں عالمی سطح پر ہولوکاسٹ کے مظالم کی مربوط کوریج شاید پہلی مرتبہ ایسے ہوئی کہ ظلم کی داستانیں انسانی یادداشت کا حصہ بن گئیں۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران آئیچمین کو ایک بلٹ پروف شیشے کے پیچھے بٹھایا جاتا کہ کہیں اسے قتل نہ کر دیا جائے، پیشی کے دن وہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتا، اپنے کاغذات کو ترتیب سے رکھتا اور ایسے اطمینان سے کرسی پر بیٹھتا جیسے کوئی بیورو کریٹ اپنے دفتر میں بیٹھا ہو،
عدالت میں گواہ پیش ہوتے، اُس کے خلاف گواہی دیتے مگر اُس کے چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرتا، ہولوکاسٹ کے مارے جب اپنے مظالم کی داستان سناتے تو آئیچمین کا موقف یہی ہوتا کہ وہ ایک پروفیشنل تھا جس نے ایک قانونی حکومت کے احکامات مانتے ہوئے اپنی ’’جاب‘‘ کی، وہ ایک بڑی مشین کا پرزہ تھا، بس۔ مقدے کے آخری روز اُس نے تسلیم کیا کہ وہ لاکھوں یہودیوں کی منتقلی کا ذمہ دار ہے جو موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے مگر وہ اس پر شرمندہ ہے اور نہ خود کو مجرم سمجھتا ہے کیونکہ وہ قانونی احکامات پر عملدرآمد کر رہا تھا۔
اس مقدمے کی کارروائی دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ یروشلم آئے جن میں سے ایک جرمن فلسفی اور مفکر ھینا آریند بھی تھیں، یہ خاتون یہودی تھیں، جب ہٹلر برسرر اقتدار آیا تو یہ نسل پرستی پر تحقیق کر رہی تھیں، گستاپو نے انہیں گرفتار کرلیا، رہائی کے بعد یہ جرمنی چھوڑ گئیں اور پھر بعد میں امریکہ چلی گئیں، انہیں بیسویں صدی کا ایک بڑا سیاسی مفکر مانا جاتا ہے۔ مس آریند نے اس مقدے کے بارے میں تاریخ ساز تبصرہ کیا، انہوں نے اس مقدے کے لئے Banality of Evilکی اصطلاح تراشی، ان کا کہنا تھا کہ ایڈولف آئیچمین یہودیوں کی نسل کشی کے ہولوکاسٹ پراجیکٹ کا اپنی مرضی سے حصہ بنا مگر یوں لگتا ہے جیسے اُس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اُس وقت مفقود ہو گئی تھیں، اگر آئیچمین یہ کہتا کہ وہ یہودیوں سے نفرت کرتاہے اس لئے مرگ انبوہ جائز ہے تو یہ اس کے کاموں کی نفسیاتی توجیہ سمجھی جا سکتی تھی مگر کسی شخص کا سپاٹ انداز میں یہ کہنا کہ وہ بس اپنی جاب کر رہا تھا بے حد خطرناک رجحان ہے،
یہ اُس نام نہاد پروفیشنلزم کی آڑ میں چھپنے کی کوشش ہے جس میں انسان بس ایک مشین کے پرزے کی طرح کام کرتا ہے اور جس طرح کسی مشین کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کسی انسان کا سر کاٹ رہی ہے یا درخت کا تنا بالکل اسی طرح آئیچمین جیسے لوگ بھی بے حس ہو جاتے ہیں، انہیں بیسویں صدی کے نام نہاد پروفیشنلزم نے جذبات سے عاری کر دیا ہے، نیکی، بدی، ظلم، بربریت، حق، باطل جیسی باتیں اُن کے لئے معنی نہیں رکھتیں، انہیں یہ دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے کہ سچائی کیا ہے اور ظلم کیا ہے اور وہ نہایت غیر محسوس طریقے سے انسان سے درندے کا روپ دھار لیتے ہیں۔
آئیچمین کا مقدمے کے دوران ضمیر کی ملامت کے بغیر یہ صفائی دینا کہ وہ بس اپنی جاب کر رہا تھا دراصل اس مشینی دور کی سفاکیت کا مظہر ہے جس میں انسان فقط احکامات کا پابند ہے، وہ سمجھتا ہے کہ جو کام اسے دیا جائے اُسے مستعدی سے بجا لانا اُس کی ذمہ داری ہے، اِن احکامات کی راہ میں اگر کوئی انسانی جان آجائے تو آ جائے، یہ احکامات اُسی طرح مانے جائیں گے جیسے کوئی بھی اور بیورو کریٹک کام کیا جاتا ہے۔ ھینا آریند کا کہنا تھا کہ آئیچمین کی سوچنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی، وہ بدی کو بدی نہیں سمجھ رہا تھا، وہ ہولوکاسٹ کو بس ایک پراجیکٹ سمجھ کر انجام دے رہا تھا۔
ایڈولف آئیچمین کا مقدمہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ جرمنی کی اُس وقت کی حکومت بظاہر ایک قانونی حکومت تھی اور آئیچمین اپنی نوکری کے تحت احکامات کی پیروی کر رہا تھا مگر کیا یہ ایسے احکامات کو ماننے کا پابند تھا جو ظلم عظیم کو جنم دے رہے تھے؟ کیا کوئی قانون ہر حال میں مانا جائے گا چاہے وہ قانون کی تعریف پر ہی پورا نہ اترتا ہو جیسے کہ غلامی بھی ایک زمانے میں قانونی تھی؟ کیا آج کا انسان مادیت کے اس دور میں اخلاقی فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے؟
اگر ہر انسان کا یہ حق تسلیم کر لیا جائے کہ وہ اپنی سمجھ بوجھ اور اخلاقی معیار کے مطابق قانون کی تشریح کرکے فیصلہ کر سکتا ہے تو کیا معاشرے میں انارکی نہیں پھیل جائے گی؟ نہیں، ہر انسان کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی من مانی کرتا پھرے مگر جن کے پاس اختیار ہوتا ہے وہ تاریخ میں ضرور مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں کہ انہوں نے ظلم اور نا انصافی کا ساتھ کیوں دیا جیسے کہ ایڈولف آئیچمین۔