ضمنی انتخابات یا آزمائش؟

دعویٰ بنا دلیل قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ انسانی فطرت یہی ہے۔

اسی وجہ سے عالم کے پروردگار نے، جو انسانی فطرت کا خالق بھی ہے، جب نبی اور رسول مبعوث کیے تو ان کے ساتھ دلیل بھی اتاری۔ مذہبی لغت میں اسے معجزہ کہا جاتا ہے۔ سیدنا موسیٰؑ کے عہد میں سحر کا شہرہ تھا۔ فرعون کے دربار میں لوگوں نے دیکھا کہ جادوگروںکے ہاتھ کی رسیاں سانپ بن کر رینگ رہی ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کی لاٹھی جب اژدھا بن کر سب کو نگل گئی تو وہ ساحر ایمان لانے والوں میں سب سے آگے تھے۔ ان سے بہتر کون جان سکتا تھا کہ موسیٰؑ کے ہاتھ میں جادو نہیں، دلیلِ رسالت ہے۔

اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ تشریف لائے تو شعر کا شہرہ تھا۔ امرالقیس اور لبید جیسے خداوندانِ سخن کا چرچا تھا۔ رسول اللہﷺ اپنے ساتھ قرآن مجید لائے۔ لبید جیسے ملک الشعرا نے سنا تو جان لیا کہ یہ شعر نہیں کہ ان سے بڑھ کر کون شعر شناس ہو سکتا تھا۔ مان لیا کہ یہ ذہنِ انسانی کی تخلیق نہیں، آسمان سے اترنے والا کلام ہے۔ ایمان لائے تو شعر کہنا چھوڑ دیا۔ سیدنا عمر ؓ نے پوچھا: لبید! شعر کیوں نہیں کہتے؟ جواب دیا؛ ‘کیا قرآن کے بعد بھی‘؟ لبید نے اس راز کو پا لیا تھا کہ محمدﷺ جو کچھ سنا رہے ہیں یہ شعر نہیں، دلیلِ رسالت ہے۔

یہ معاملہ تو پیغمبروں کا ہے جن کا وجود ہی سراپا حق ہوتا ہے۔ وہ بھی اتمامِ حجت کے لیے دلیل پیش کرتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ انسانی سماج اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر معاملہ کسی غیر پیغمبر کا ہو تو وہ اِس سے کہیں زیادہ محتاج ہے کہ اپنے دعوے کے حق میں اپنے عمل سے دلیل پیش کرے۔ عمران خان صاحب نے بھی دعوے کر رکھے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہتھیلی پہ سرسوں نہیں اگتی۔ بہت سے وعدے ایسے ہیں کہ ان کو ثابت کرنے کے لیے وقت چاہیے اور اس سے پہلے ان کی تکذیب جائز نہیں۔ مگر کچھ دعووں کو ثابت کرنے کا وقت، اب آ گیا ہے۔ یہ ضمنی انتخابات کا موقع ہے۔

عمران خان نے عام انتخابات میں اپنے دعوے سے انحراف کیا‘ اور ان لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دیے جو تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی نظر میں بھی نا پسندیدہ تھے۔ انہوں نے اسے قیادت کی مجبوری سمجھ کر گوارا کر لیا کہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی دلیل تھی کہ اب فرشتے کہاں سے آئیں؟ وہ جیسے تیسے اس مرحلے سے گزر کر حکومتی ایوان تک پہنچ گئے۔ آج کارکن سوال اٹھاتے ہیں کہ اب شیخ رشید جیسوں کی کیا محتاجی ہے؟ عمران خان نے موروثی سیاست کے خاتمے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنا یہ دعویٰ ثابت کریں۔

میں اپنا ایک مشاہدہ یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح، راولپنڈی شہر میں بھی ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ ایک طرف شیخ رشید صاحب کا اصرار ہے کہ ان کے بھتیجے کو تحریکِ انصاف کا ٹکٹ دیا جائے۔ دوسری طرف تحریکِ انصاف کے کارکن چاہتے ہیں کہ ان کی نمائندگی مصدق گھمن کریں۔ میں راولپنڈی شہر میں رہتا ہوں۔ دونوں کو کسی حد تک جانتا ہوں۔ شیخ راشد کو کم، مصدق گھمن کو زیادہ۔ شیخ راشد شفیق میں اس کے سوا کوئی خصوصیت نہیں کہ وہ شیخ رشید کے بھتیجے ہیں۔ اب یہ خصوصیت ان کی شہرت میں جو چاند ٹانک رہی ہے، اس کا اندازہ سارے پاکستان کو ہے۔

دوسری طرف مصدق گھمن ایک پڑھا لکھا اور سنجیدہ سیاسی کارکن ہے۔ شائستہ اور متواضع۔ امتِ مسلمہ کے مسائل پر ایک فاضلانہ کتاب بزبانِ انگریزی لکھی۔ ایک اخبار میں برسوں سے کالم لکھ رہا ہے اور اپنی بات دلیل کے ساتھ کہنے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ تحریکِ انصاف کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہے، جن سے اختلاف کے باوجود، میرا سماجی تعلق باہمی احترام پر مبنی ہے۔ وہ کسی سیاست دان کا بھانجا ہے نہ بھتیجا۔ ایک مڈل کلاس پاکستانی۔ اگر عمران خان ایسے کارکن پر ایک دوسری جماعت کے فرد کو ترجیح دیں گے‘ اور وہ بھی اس بنیاد پر کہ فلاں سیاست دان کا بھتیجا ہے تو مورثی سیاست کے خلاف اپنا مقدمہ اپنے ہی ہاتھ سے کمزور کریں گے۔

انتخابی نتائج کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے؛ تاہم ہماری سماجی ساخت کچھ ایسی ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کو ایک نفسیاتی برتری حاصل ہوتی ہے۔ اس سے حکمران جماعت کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ الیکٹ ایبلز پر اس کا انحصار کم ہو جاتا ہے۔ یوں سیاسی قیادت کسی دباؤ کے بغیر ان لوگوںکو سامنے لا سکتی ہے جو اس کی ساکھ اور کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ راولپنڈی میں تو ایسی کوئی مجبوری بھی نہیں ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ شیخ رشید اپنی نشست کے لیے تحریکِ انصاف کے محتاج تھے۔ تحریکِ انصاف کو ان کی کوئی محتاجی نہ تھی۔ اس کے باوجود اگر عمران خان شیخ رشید کے بھتیجے کو ٹکٹ دیتے ہیں تو یہ سیاسی بصیرت کا قابلِ ستائش اظہار نہیں ہو گا۔

عمران خان کے پاس اب موقع ہے کہ وہ سیاسی کلچر کو بدلنے کی شعوری کوشش کریں۔ حکومتی کارکردگی تو کچھ ایسے عوامل پر منحصر ہے‘ جو پوری طرح ان کے ہاتھ میں نہیں۔ ان کی باگ وقت کے ہاتھ میں ہے؛ تاہم سیاسی کلچر کی تبدیلی تو بڑی حد تک ان کے ہاتھ میں ہے۔ ان میں سب سے اہم تحریکِ انصاف کو ایک سیاسی جماعت بنانا ہے۔ اس سے پہلے ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت، برسرِ اقتدار آنے کے بعد، سب سے زیادہ اپنی جماعت ہی کو نظر انداز کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ ان جماعتوں کو اس دور میں عروج ملا جب یہ اپوزیشن میں تھیں۔ عمران خان کیا اسی تاریخ کو دھرانا چاہتے ہیں؟

تحریکِ انصاف ابھی تک کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ یہ عمران خان کے مداحوں کا ایک کلب ہے۔ یہ مداح اس ہیجان اور رومان کی دَین ہیں، جسے عمران خان نے فروغ دیا۔ ہیجان ایک وقتی حکمتِ عملی تو ہو سکتی ہے، مستقل نہیں۔ اس کے لیے انہیں ٹھوس بنیادوں پر جماعت سازی کرنا ہو گی۔ یہ کام رجالِ کار کا محتاج ہے۔ جارحیت ایک عقل مند آدمی کا مستقل رویہ نہیں ہو سکتا۔ یہ انتخابی فضا میں تو کارآمد ہو سکتا ہے، عام دنوں میں نہیں، جب کہ اقتدار بھی آپ کے پاس ہو۔ عمران خان کو اندازہ تو ہو گیا ہے کہ جارحیت پسندوں نے حکومت کو ابتدائی دنوں ہی میں کس طرح مشکلات میں مبتلا کر دیا۔

سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا اور بحث کو سنجیدہ رخ دینا اس وقت تحریکِ انصاف کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب اسے ایسے وکیل ملیں جو سنجیدگی، شائستگی اور دلیل کے ساتھ، پارٹی کا مقدمہ پیش کر سکیں۔ تحریکِ انصاف کو اب یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنے پوٹینشل کے بل پر کھڑی ہے، کسی بیساکھی کے سہارے نہیں۔ شیخ رشید یا ان کا بھتیجا تحریکِ انصاف کا مقدمہ نہیں لڑ سکتے۔ اس کے لیے پارٹی کو مصدق گھمن جیسے با صلاحیت، مخلص اور سنجیدہ لوگوں کی ضرورت ہو گی۔ یوں بھی میرا خیال ہے کہ شیخ رشید کا سیاسی کردار ختم ہو چکا۔ کہانی جیسے جیسے آگے بڑھے گی، ان کا کردار مزید کم ہوتا جائے گا۔ عمران خان کو ان سے ایک ہی خوف ہو سکتا ہے۔ ناراض ہو کر نواز شریف سے جا ملیں اور اپنی پچھلی تقریریں دھرانے لگیں، اس فرق کے ساتھ کہ ان کے جملوں میں نواز شریف کہ جگہ عمران خان کا نام شامل ہو جائے۔

سیاست کی تطہیر کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ان چہروں کو نئے چہروں سے بدلتی رہیں‘ جو اپنی افادیت کھو چکے یا جن کی شہرت پارٹی کی کمزوری بن جائے۔ ضمنی انتخابات ایک حکمران جماعت کے پاس سنہری موقع ہوتا ہے‘ جب وہ بہتر قیادت کو سامنے لا سکتی اور اپنے دعووں کا ثبوت فراہم کر سکتی ہے۔ عمران خان موروثی سیاست کے کتنا خلاف ہیں، اس کا اندازہ آنے والے ضمنی انتخابات سے ہو جائے گا۔ حکومتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی کارکردگی کا دار و مدار گفتار پر نہیں، کردار پر ہوتا ہے۔ انسانی فطرت یہی ہے کہ وہ دعوے کی دلیل مانگتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے